ان کے اہل خانہ کے مطابق نیّرہ نور کئی روز سے بیمار تھیں۔
کراچی کے ایک نجی ہسپتال میں ان کاعلاج جاری تھا جہاں ان کا انتقال ہوا۔
’بلبل پاکستان‘ کہلانے والی نیّرہ نور کو صدر پاکستان کی جانب سے 2006 میں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا گیا جبکہ 1973 میں انہیں نگار ایوارڈ دیا گیا تھا۔
نیّرہ نور نے فیض احمد فیض سمیت دیگر نامور شعرا کلام منفرد انداز میں گایا اور اسے بہت پسند کیا گیا تھا۔
نیّرہ نور غزل، گیت اور نظم تینوں کو گانے میں مہارت رکھتی تھیں۔
70 کی دہائی میں گائیکی کا سفر شروع کرنے والی نیّرہ نور نے 80 اور 90 کی دہائی میں اپنے سُر کا جادو جگاتی رہیں جبکہ 2000 کے بعد انہوں نے گانا کم کر دیا تھا۔
وہ 1950 میں گوہاٹی، آسام میں پیدا ہوئی تھیں۔
ویسے تو نیّرہ نور غزلوں اور ملی نغموں کے لیے بہت مشہور تھیں تاہم انہوں نے فلموں کے لیے بھی گانے گائے، جن میں فلم آئینہ کا گانا ’روٹھے ہو تم، تم کو کیسے مناؤں، پیا‘ بھی شامل ہے۔
نیّرہ نور نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ ان کو شاعر فیض احمد فیض کی بیٹی منیزہ ہاشمی نے پاکستان ٹیلی ویژن پر متعارف کروایا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ گلوکاری کی طرف آئیں گی مگر شروع سے ہی موسیقی پسند تھی اور جب بھی کوئی اچھی چیز سنتیں تو لگتا کہ وہ رگ و پے میں اتر رہی ہے۔
نیّرہ نور بنیادی طور پر ایک سادہ خاتون تھیں اور بے پناہ شہرت ملنے کے بعد بھی انہوں نے سادہ زندگی گزاری۔
ان کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ انہوں نے انٹرویوز بہت کم دیے۔
انہوں نے گانے کی باقاعدہ تربیت حاصل نہیں کی تھی تاہم انہیں گنگنانے کا شوق بہت تھا جو ریڈیو سن کر اور زیادہ ہو جاتا، اس لیے انہوں نے اپنے طور پر ریاض شروع کر دیا تھا۔ پھر جب گانے کا موقع ملا تو انہیں بہت پسند کیا گیا۔
نیّرہ نور کی شادی شہریار زیدی سے اس وقت ہوئی جب وہ بھی گلوکاری کیا کرتے تھے، بعدازاں وہ اداکاری کی طرف آئے اور آج کل بھی ڈراموں میں کام کر رہے ہیں۔
نیّرہ نور کے دو بیٹے ہیں جن میں سے ایک کا نام کاوش ہے اور وہ بھی گلوکار ہیں۔