Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انڈیا سے تعلقات، ’جو سفارتکاری نہ کر پائی وہ پاکستانی ڈرامے کرتے ہیں‘

حقیقت کے قریب تر کہانیوں کی وجہ سے پاکستانی ڈرامے انڈیا میں بھی مقبول ہیں (فوٹو: اے پی)
انڈیا میں پاکستانی ڈراموں کی مقبولیت بڑھتی ہی جا رہی ہے اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ان شوز نے دونوں ممالک کے عوام کو جوڑنے میں جو کردار ادا کیا ہے وہ کسی سفارتکاری سے ممکن نہیں ہو سکا۔
حقیقت کے قریب تر کہانیاں، غیر بناوٹی انداز میں مکالمے، خاندانوں کے مسائل، تعلقات اور شادیوں کے حوالے سے مختلف پلاٹس پر مبنی پاکستانی ڈرامے نہ صرف ملکی بلکہ غیرملکی ناظرین کے بھی پسندیدہ ہیں۔ خاص طور پر پڑوسی ملک انڈیا میں ان ڈراموں کو خاصی پذیرائی حاصل ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اسلام آباد میں انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کی ریسرچ ایسو سی ایٹ ماہین شفیق کہتی ہیں کہ دونوں حکومتوں کے درمیان مؤثر طور پر کوئی تعلق نہیں۔
’انڈیا اور پاکستان دہشت گردی اور جموں و کشمیر کے متنازع علاقے جیسے مسئلوں سے ہٹ کر بات نہیں کرتے۔ حکومتیں ایک دوسرے کی بہت مخالف ہیں۔‘
اگرچہ انڈیا کے عوام کے لیے پاکستان کا دورہ کرنا مشکل ہے جہاں  ان ڈراموں کی شوٹنگ ہوتی ہے، تاہم وہ یوٹیوب، زی فائیو اور ایم ایکس پلیئر جیسے پلٹ فارمز پر انہیں دیکھ سکتے ہیں۔
لیکن ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ ایک نسل ایسی بھی رہی ہے جسے ان پلیٹ فارمز کی سہولت میسر نہیں تھی۔
انڈیا کے شہر پٹنہ کی مصنّفہ کاویری شرما 1980 اور 1990 کی دہائی کی یادیں شیئر کرتے ہوئے بتاتی ہیں کہ کیسے ان کی ساس اور خالہ پاکستان کے سرکاری ٹی وی چینل پی ٹی وی کے سگنل پکڑنے کے لیے انٹینے سے اُلجھتی تھیں۔
اس طرح انہیں پہلی بار اندازہ ہوا کہ سرحد پار ایک ایسا ملک ہے جو ڈراموں کا ’پاور ہاؤس‘ ہے۔
وہ ان ڈراموں کے حوالے سے کہتی ہیں کہ ’یہ جانے پہچانے سے لگتے ہیں اور ہمیں اپنی زندگیوں سے ایک بریک بھی ملتا ہے۔ مجھے دونوں ممالک کے درمیان کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ میں کراچی کو دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ یہ لکھنٔو یا پٹنہ ہے۔ ڈراموں میں جو کچھ ہوتا ہے وہ میرے یا میرے دوستوں کے ساتھ ہوا ہوتا ہے۔‘
کاویری شرما بتاتی ہیں کہ انہوں نے بچپن سے ہی پاکستان کے بارے میں صرف منفی باتیں ہی سن رکھی تھیں جیسے کہ یہ دشمن ہے اور انڈیا سے سب کچھ چھین لے گا۔
وہ کہتی ہیں کہ ٹی وی ڈراموں نے اس تاثر کو بدلا ہے اور وہ پاکستان جانا چاہیں گی اگرچہ انہیں یہ موقع ملنے کا امکان نہیں۔
اسی لیے وہ چھوٹی سکرین پر دکھائے گئے مقامات، مالز، دفاتر، گلیوں اور ریستورانوں کے ذریعے پاکستان کو دیکھ لیتی ہیں۔

کاویری شرما کہتی ہیں کہ ٹی وی ڈراموں نے اس تاثر کو بدلا ہے اور وہ پاکستان جانا چاہیں گی (فوٹو: اے پی)

کاویری شرما کہتی ہیں کہ ’پاکستانی کردار صرف ہیرو یا ولن ہی نہیں ہوتے۔ ان کے بہت سے روپ ہیں اور یہ بالکل فطری لگتے ہیں۔ انہوں نے مجھے بہت متاثر کیا۔ ہم نے ایک کیبل کنکشن لیا جس سے پی ٹی وی دیکھا جا سکتا تھا۔ پھر یوٹیوب آیا اور مجھے احساس ہوا کہ میں جو بھی ڈرامہ چاہوں اسے دیکھ سکتی ہوں۔ اور پھر میں رُکی نہیں۔‘
پاکستان کے سینیئر اداکار خالد انعم نے انڈیا میں پاکستانی ڈراموں کی مقبولیت پر خوشی کا اظہار کیا۔
انہوں نے کہا کہ ’انڈین سیریلز میں 15 منٹ کے فلیش بیک ہوتے ہیں۔ یہ ایک خیالی دنیا ہے۔ شوز ہمیشہ چلتے رہتے ہیں۔‘
اسلام آباد سے تعلق رکھنے والی ہدایت کار سیف حسن کہتے ہیں کہ ’پاکستانی عموماً جذباتی لوگ ہوتے ہیں، اور یہ ان کے ڈراموں میں بھی نظر آتا ہے۔ مجھے سپر ڈوپر ہٹ ڈرامہ ’کبھی میں، کبھی تم‘ کے پلاٹ کی وضاحت کرنے میں دو منٹ سے بھی کم وقت لگے گا۔ اس کی کہانی ایک شوہر اور بیوی کے جذبات پر مبنی ہے۔‘

سیف حسن کا کہنا ہے کہ پاکستانی ڈراموں میں بے ہودگی، تشدد یا ایکشن نہیں ہوتا اس لیے پسند کیے جاتے ہیں (فوٹو: اے پی)

1990 کی دہائی میں اپنے ٹی وی کیریئر کا آغاز کرنے والے سیف حسن نے بتایا کہ انڈین شہری اکثر ان کے سوشل میڈیا پیجز پر تبصرہ کرتے ہیں اور انہیں براہِ راست پیغامات بھی بھیجتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ’ہمارا سوچنے کا انداز مغرب سے مختلف ہے۔ پاکستانی ڈراموں میں کوئی بے ہودگی، تشدد یا حتیٰ کہ ایکشن بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے انڈیا کے لوگوں کو پاکستانی ڈرامے پسند آتے ہیں۔‘
سیف حسن کا مزید کہنا تھا کہ ’وہ ہمارے لوگ ہیں۔ وہ ہمارے جیسے ہیں۔ وہ ہماری طرح کھاتے ہیں۔ میں انڈیا سے پیار کرتا ہوں اور میں انڈیا کے لوگوں سے پیار کرتا ہوں۔‘

 

شیئر: