Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بروجن داس: پاکستانی تیراک جنہیں جیت کی خوشخبری ہسپتال کے بستر پر ملی

بروجن داس کی کی بدولت ایک عشرے سے زائد عرصہ قبل آزاد ہونے والے پاکستان کے نام کا ڈنکا دنیا میں بجنے لگا(فوٹو: بروجن داس ڈاٹ کام)
’مقابلہ سنسنی خیز ہو گیا جب اعلان ہوا کہ تیراک نمبر 19 ڈوور ساحل سے نصف میل دور ہے۔ جب ہم گھاٹ پہ پہنچے تو دیکھا کہ بروجن داس اپنے آپ کو گھسیٹ کر ساحل کی ابھری چٹان تک پہنچنے کی کوشش کر رہا ہے۔ چینل انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہو رہا تھا کہ پیراک نمبر 19 مقابلہ جیتنے کے قریب ہے۔ ہم اپنی بوٹ سے دیکھ رہے تھے کہ جب وہ چٹان تک پہنچا تو تھکن کی وجہ سے وہی ڈھیر ہو گیا۔‘
اگست 1958 کے آخری ہفتے میں کراچی کے اخبار ’مارننگ نیوز‘ میں لندن کے نمائندے یحییٰ سید کا طویل فاصلے کی سوئمنگ کے عالمی مقابلے کا آنکھوں دیکھا حال شائع ہوا جس میں دنیا بھر میں پاکستان کا نام روشن کرنے والے سوئمنگ کے کھلاڑی کی کامیابی کا احوال بتایا گیا تھا۔
پاکستان کے تیراک 30 سالہ بروجن داس نے 23 اگست 1958 (بعض لوگوں کے نزدیک 18 اگست) کو انگلش چینل (رودبار انگلستان ) عبور کر کے طویل فاصلے کی تیراکی میں نیا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔
تیراکی کا عالمی اعزاز جیتنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے دو اور ریکارڈ بھی اپنے نام کیے۔
بروجن داس پہلے ایشیائی تیراک تھے جنہوں نے انگلش چینل میں سوئمنگ کا عالمی اعزاز جیتا۔ ان کی دوسری انفرادیت یہ تھی کہ اپنے کیریئر میں پہلی بار اس مقابلے میں شامل ہوئے اور فاتح بن کر لوٹے۔

جیت کی اطلاع سے بے خبر فاتح

فرانس اور برطانیہ کے درمیان واقع انگلش چینل عبور کرنے کے عالمی مقابلے میں 23 ملکوں کے 39 کھلاڑی حصہ لے رہے تھے۔
پاکستانی کھلاڑی بروجن داس نے علی الصبح  دو بج کر پانچ منٹ پر فرانس کے ساحل ’کیپ گری بینز‘ کے مقام سے سمندر میں چھلانگ لگائی۔
34 کلومیٹر طویل سمندری راستہ شوریدہ سر لہروں سے بھرا ہوا تھا۔ وہ پہلے رات کی تاریکی اور پھر دن کے اجالے میں بپھری لہروں سے نبرد آزما ہوئے۔
انگلش چینل سوئمنگ ایسوسی ایشن کا وائرلیس شپ ’بریٹا نیا‘ سمندر میں جاری مقابلے اور تیراکوں کی پیش رفت سے انتظامیہ کو لمحہ بہ لمحہ آگاہ کر رہا تھا۔
سمندر کی متلاطم موجوں کے تھپیڑوں کی تاب نہ لاتے ہوئے بہت سارے کھلاڑی مقابلے سے باہر ہو گئے۔ بروجن داس کو بھی ایسی ہی غضب ناک لہر اٹھا کر مقرر روٹ سے 45 میٹر دور پھینک دیتی ہے مگر جاں گسل جدوجہد سے وہ اختتام کی سمت جانے والے راستے پر واپس آگئے۔
آخری تین میل کے فاصلے میں ترکی کے کھلاڑی اسمین ان کے ساتھ ساتھ تیر رہے تھے۔ دونوں مقابلہ جیتنے کے لیے سر دھڑ کی بازی لگائے ہوئے تھے۔

بروجن داس پہلے ایشیائی تیراک تھے جنہوں نے انگلش چینل میں سوئمنگ کا عالمی اعزاز جیتا(فوٹو: بروجن داس ڈاٹ کام)

مارننگ نیوز میں سید یحییٰ اختتامی لمحات کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جب انتظامیہ کی طرف سے اعلان ہوا کہ کھلاڑی نمبر 19 بروجن داس ساحل سے آدھا میل دور ہیں، میں اپنے دیگر صحافی دوستوں کے ساتھ ایک بوٹ کے ذریعے مقابلے کے اختتام کی جگہ کے قریب چلا گیا۔
شام چار بج کر 30 منٹ پر تھکن سے چور بروجن داس 14 گھنٹے اور 25 منٹ مسلسل تیر کر ساحلی پٹی تک پہنچے تو نقاہت سے بے ہوش ہوچکے تھے۔ انتظامیہ کی بوٹ نے انہیں فوراً ہسپتال منتقل کیا۔
برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر اکرام اللہ اپنے سفارتی عملے کے ساتھ یہ تاریخی لمحات دیکھنے وہاں موجود تھے۔
جب مقابلے کے فاتح کا اعلان ہوا تو پاکستانی پرچم بردار بوٹ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونج اٹھی۔
دوسری طرف بروجن داس اپنے کارنامے سے بے خبر ہسپتال میں بے ہوشی کے عالم میں پڑے تھے۔ حالت سنبھلنے پر انہیں ہسپتال کے بستر پر جیت کی خوش خبری سنائی گئی۔
بچپن سے جوانی تک مشرقی پاکستان کے ندی نالوں اور دریاؤں کی منہ زور لہروں سے کھیلنے والے نوجوان کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا کی تکمیل ہوچکی تھی۔

بوڑھی گنگا سے انگلش چینل تک       

بروجن داس کا جنم مشرقی پاکستان(اب بنگلہ دیش) کے علاقے منشی گنج میں 9 دسمبر 19 سو 27 کو ہوا۔ والد سیمنٹ کے کاروبار سے منسلک تھے۔
بچپن ہم جولیوں کے ساتھ گاؤں کے تالاب اور قریبی ندیوں میں تیرنے کے مشاغل میں گزرا۔
گاؤں سے ذرا دور دریا کی موجوں سے کھیلتے کھیلتے بروجن داس کالج اور یونیورسٹی کے بہترین تیراک بن کر ابھرے۔
والد ڈھاکہ منتقل ہوئے تو گھر سے کچھ فاصلے پر بوڑھی گنگا بہتی تھی۔ انہیں ٹریننگ کے لیے اس کا وسیع و عریض تیز لہروں بھرا میدان میسر آگیا۔
سنہ 1952 میں مغربی بنگال  کی سطح کے مقابلوں میں اول آئے۔ آنے والے چار برسوں میں انہوں نے ملکی سطح کے تمام فاصلوں کے سوئمنگ مقابلوں میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔ مشرقی اور مغربی پاکستان کے تمام سوئمنگ مقابلوں کا ہر ٹائٹل ان کے پاس تھا۔
اب ان کی نظریں اور منزل 1956 کے اولمپکس میں زور آزمائی کرنا تھا۔ ان کے لیے یہ شدید حیرت اور صدمے کا مقام تھا جب میلبورن اولمپکس میں حصہ لینے والی سوئمنگ ٹیم میں انہیں شامل ہی نہیں کیا گیا۔

بروجن داس 14 گھنٹے اور 25 منٹ مسلسل تیر کر ساحلی پٹی تک پہنچے تو نقاہت سے بے ہوش ہوچکے تھے(فوٹو: بروجن داس ڈاٹ کام)

اسی پر بس نہیں بلکہ اگلے سال ٹوکیو گیمز میں بھی شرکت سے وہ محروم کر دیے گئے۔
عالمی مقابلوں میں جوہر دکھانے کا خواب چکنا چور ہونے پر بروجن داس نے دلبرداشتہ ہوکر اس کھیل کو خیرآباد کہنے کا فیصلہ کرلیا۔
کسی نے مایوس بروجن داس  کو انگلش چینل میں طویل فاصلے کی سوئمنگ  کے عالمی مقابلے کے بارے میں بتایا۔ پھر انہوں نے اپنے دوست محسن کے مشورے اور معاونت سے اس مقابلے کے لیے قسمت آزمائی کرنے کی ٹھانی۔
انہوں نے بنگال کے تلاطم خیز دریا مگھنیا میں نارائن گنج سے چاند پور کا 40 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اپنے آپ کو انہوں نے انگلش چینل کے لیے تیار کرنا شروع کیا۔

انگلش چینل کیا ہے؟

انگلش چینل یا رودبار انگلستان جس کا ذکر صرف چینل کے نام سے بھی کیا جاتا ہے، بحرِ اوقیانوس کی ایک شاخ ہے۔ یہ انگلستان کے جنوب کو شمالی فرانس سے جدا کرتا ہے۔ آبنائے ڈوور میں اس کی چوڑائی 34 کلومیٹر ہے۔
انگلش چینل دنیا بھر کے تیراکوں کی جولانیوں کا مرکز رہا ہے۔ اس کی سرکش لہروں سے لڑنے کا اعصاب شکن کھیل بعض اوقات موت کا خونی کھیل بھی ثابت ہوتا ہے۔
سنہ 1926 سے 2017 تک دنیا بھر کے 10 تیراک فرانس سے انگلینڈ پہنچنے کی جدوجہد میں موت کو گلے لگا چکے ہیں۔

انگلش چینل یا رودبار انگلستان کا ذکر صرف چینل کے نام سے بھی کیا جاتا ہے (فوٹو: بروجن داس ڈاٹ کام)

یہ چینل شوقیہ اور پروفیشنل دونوں طرح کی سوئمنگ کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ یہاں تراکی کے لیے باقاعدہ اجازت نامے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی شرائط میں جسمانی فٹنس، ضروری سازوسامان بشمول پائیلٹ بوٹ کا ہونا بھی ضروری ہے۔
انٹرنیشنل چینل سوئمنگ ایسوسی ایشن اس کا انتظام چلاتی ہے۔
سنہ 1875 سے 2006 تک 12 کھلاڑی ایسے گزرے ہیں جنہوں نے 34 بار اس چینل کو تیر کر عبور کیا ہے۔ انہیں ایسوسی ایشن کی طرف سے کنگ آف چینل کا خطاب دیا گیا ہے۔

بروجن داس ’کنگ آف چینل‘

بروجن داس نے انگلینڈ پہنچ کر چینل کے یخ بستہ پانیوں میں پیراکی کی مشق شروع کی۔ اس دوران بحیرۂ روم میں کیپری سے نیپلز تک 37 کلومیٹر طویل تیراکی کے مقابلے میں تیسری پوزیشن نے ان کے اعتماد کو جلا بخشی۔
اپنی زندگی کے پہلے ہی مقابلے میں فاتح ٹھہرنے پر بروجن داس کا نام سوئمنگ کے عالمی حلقوں اور دنیا کے میڈیا میں گونجنے لگا۔
اب ان کا اگلا ہدف کم ترین وقت میں چینل عبور کرنے کا ایک اور ریکارڈ بنانا تھا۔
اس سے قبل یہ اعزاز مصر کے تیراک حسن عبدالابراہیم کے پاس تھا۔ جنہوں نے 1950 میں 10 گھنٹے اور 50 منٹ میں سمندر عبور کر کے سب سے کم وقت کا عالمی ریکارڈ قائم کیا تھا۔
سنہ 1959 میں بروجن داس  نے دنیا کے 30 ماہر تیراکوں کو پیچھے چھوڑتے ہوئے 13 گھنٹے اور 59 منٹ میں فاصلہ طے کر کے ایک بار پھر یہ اعزاز جیت لیا۔
اگلے ہی ماہ انہوں نے فرانس کے بجائے انگلینڈ کے ساحل سے سمندری سفر شروع کیا۔ فرانس پہنچنے تک انہیں 13 گھنٹے اور 26 منٹ لگے۔ اب کی بار وہ دنیا کے واحد کھلاڑی بن گئے جس نے ایک ماہ میں دو بار انگلش چینل عبور کیا۔

بروجن داس سنہ 1960 میں چوتھی بار اور ستمبر 1961 میں پانچویں بار چینل عبور کرنے میں کامیاب ہوئے(فوٹو: بروجن داس ڈاٹ کام)

بروجن داس سنہ 1960 میں چوتھی بار اور ستمبر 1961 میں پانچویں بار چینل عبور کرنے میں کامیاب ہوئے۔ مگر دونوں بار وہ سی سکنیس (سمندر کے پانی سے طبیعت کی خرابی) اور خراب موسم کی وجہ سے کم سے کم وقت کا عالمی ریکارڈ توڑنے میں ناکام رہے۔
21 ستمبر 1961 کی صبح چار بج کر 35 منٹ پر جب بروجن داس انگلینڈ کے ساحل پر موجود سے باہر نکلے تو وہ مصری تیراک کا عالمی ریکارڈ توڑ چکے تھے۔
10 گھنٹے اور 35 منٹ کے ساتھ وہ سب سے کم وقت میں چینل تیر کر عبور کرنے والے کھلاڑی کا اعزاز حاصل کر چکے تھے۔
سنہ 1961 کے روزنامہ ڈان میں اظہار الحسن برنی نے بروجن داس کی کامیابی پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ چار برس تک انہیں ایک ہی لگن تھی کہ وہ کم سے کم وقت کا عالمی ریکارڈ قائم کریں۔ انہوں نے لندن میں پاکستانی ہائی کمشنر اکرام اللہ کو کہا تھا کہ ’اگر میں ناکام ہوگیا تو میری لاش سمندر سے نکال لینا میں دنیا میں اپنے ملک کا نام بدنام ہوتے ہوئے نہیں دیکھ سکتا۔‘
انٹرنیشنل  چینل سوئمنگ ایسوسی ایشن نے انہیں کنگ آف چینل کا خطاب عطا کیا۔

ملکہ برطانیہ کا بلاوا

بروجن داس کی کی بدولت ایک عشرے سے زائد عرصہ قبل آزاد ہونے والے پاکستان کے نام کا ڈنکا دنیا میں بجنے لگا۔
سنہ 1959 میں انہیں صدر ایوب خان نے ملاقات کے لیے بلایا۔ شاندار عالمی اعزاز پر تمغۂ حسن کارکردگی سے نوازا۔
انڈین وزیراعظم جواہر لال نہرو کے الفاظ میں ’بلا لحاظ عقیدہ اور ذات ہر فرد کو ان پر فخر ہے۔‘
اسی طرح اس وقت کے وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو اور مشرقی پاکستان کے گورنر اعظم خان نے ان کے کارنامے کو شاندار الفاظ میں سراہا۔
بروجن داس نے جب چھٹی بار چینل عبور کیا تو انہیں ملکہ برطانیہ نے اپنے دستخطوں کے ساتھ ملاقات کا دعوت نامہ بھیجا۔ جب وہ شاہی محل پہنچے تو ہندوستان کے سابق وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن استقبال کے لیے موجود تھے۔

جب وہ شاہی محل پہنچے تو ہندوستان کے سابق وائسرائے لارڈ ماؤنٹ بیٹن استقبال کے لیے موجود تھے (فوٹو: بروجن داس ڈاٹ کام)

بروجن داس جب ملکہ کے پاس پہنچے تو وہ پھولوں کا گلدستہ لیے ان کی منتظر تھیں۔ ملاقات میں ملکہ الزبتھ نے حیرت سے پوچھا کہ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ کوئی شخص چھ بار یہ کارنامہ سر انجام دے سکتا ہے۔
سنہ 1964 میں امریکی حکومت نے انہیں سرکاری حیثیت میں مدعو کیا۔ صدر سے ان کی ملاقات کروائی گئی۔ مہینوں تک وہ امریکہ کی مختلف ریاستوں کی سوئمنگ ٹیموں کی ٹریننگ کے لیے مشیر کے طور پر کام کرتے رہے۔
پھر 1965میں انٹرنیشنل میراتھن سوئمنگ ہال آف فیم میں ان کا نام شامل کیا گیا۔

پاکستان میں اجنبی

ہنس مکھ اور خوش اطوار بروجن داس فلموں کے رسیا تھے۔ انہوں نے مغربی بنگال میں بہت ساری فلمیں پروڈیوس کیں۔ اپنی فنکارانہ طبیعت کے باعث ان کی شادی کلاسیکی گلوکارہ مدھو چندا سے ہوئی۔ وہ شہرت یافتہ کلاسیکی گائیک استاد نزاکت علی اور ان کے بھائی استاد سلامت علی کی شاگرد بھی تھیں۔[
بنگلہ دیش کی علیحدگی کے بعد بروجن داس وہیں کے ہو کر رہ گئے جہاں انہیں حکومت کی طرف سے اعلیٰ ایوارڈ سے نوازا گیا۔
جون 1998  کو وہ بیمار پڑ گئے۔ پہلے ڈھاکہ اور پھر کلکتہ علاج کے لیے لے جایا گیا جہاں یکم جون کو ان کا انتقال ہوگیا۔ ان کی بیٹی سنگیتا پال ممبئی میں مقیم ہیں۔
سابق صدر ایوب خان نے عالمی اعزاز حاصل کرنے کے بعد ایک ملاقات میں انہیں کہا تھا ’شاباش میرے لڑکے۔ یہ ریکارڈ بنانے پر تمہارا نام ہر پاکستانی کے دل پر نقش ہو گیا ہے جو طویل عرصے تک مٹایا نہیں جا سکے گا۔‘

اپنی فنکارانہ طبیعت کے باعث ان کی شادی کلاسیکی گلوکارہ مدھو چندا سے ہوئی (فوٹو: بروجن داس ڈاٹ کام)

لگ بھگ 64 برس کے طویل عرصے بعد شاید یہ نام پاکستانیوں کے دل پر سے مٹ چکا ہے۔
پاکستان سوئمنگ فیڈریشن کی آفیشل ویب سائٹ پر ان کے قائم کردہ عالمی ریکارڈ کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے۔
اس حوالے سے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر فیڈریشن کے سیکرٹری جنرل لیفٹیننٹ کرنل احمد علی خان نے بتایا کہ انہیں فیڈریشن کی طرف سے جو ریکارڈ ملا ہے اس میں بروجن داس کے حوالے سے کوئی دستاویز یا کارنامے کے بارے میں کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔ وہ اس حوالے سے سپورٹس بورڈ اور اولمپکس ایسوسی ایشن سے معلومات حاصل کریں گے۔

پاکستان سوئمنگ فیڈریشن کی آفیشل ویب سائٹ پر ان کے قائم کردہ عالمی ریکارڈ کا کوئی تذکرہ موجود نہیں ہے(فوٹو: بروج داس ڈاٹ کام)

اگر یہ بات درست ہوئی کہ بروجن داس سوئمنگ میں عالمی ریکارڈ کے حامل تھے تو ان کا نام سامنے لایا جائے گا۔
فراموش شدہ بروجن داس کا نام البتہ پاکستان سپورٹس بورڈ کی آفیشل ویب سائٹ پر سوئمنگ میں قومی اعزاز حاصل کرنے والے کھلاڑی کے طور پر درج ہے۔ مگر یہاں بھی یہ نہیں بتایا گیا کہ وہ کون تھے اور انہوں نے کیا کارنامہ سرانجام دیا تھا۔
ان کے تعارف کے لیے اگر عالمی شہرت یافتہ باکسر محمد علی کا یہ جملہ ہی نقل کر دیا جائے جو انہوں نے بروجن داس کے بارے میں کہا تھا تو کافی ہے۔
’تم چینل کے بادشاہ ہو اور میں رِنگ کا بادشاہ ہوں۔ میرے خیال میں تمہارا کارنامہ میرے کارنامے سے برتر ہے۔‘ 

شیئر: