خیبر پختونخوا حکومت کا انکار، کیا آئی ایم ایف پاکستان کا قرضہ روک سکتا ہے؟
خیبر پختونخوا حکومت کا انکار، کیا آئی ایم ایف پاکستان کا قرضہ روک سکتا ہے؟
ہفتہ 27 اگست 2022 17:28
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
ماہرین کے مطابق ’آئی ایم ایف پروگرام کی تاخیر سے پاکستانی معیشت کو بہت نقصان ہوگا‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف پروگرام کی شرائط ماننے سے انکار کر دیا گیا ہے۔
خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ تیمور سلیم جھگڑا نے آئی ایم ایف کے ساتھ حتمی معاہدے سے قبل ہی عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی شرط پر عمل کرنے سے انکار کردیا ہے۔
وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل کو لکھے گئے خط میں ان کا کہنا ہے کہ ’صوبائی حکومت آئی ایم ایف کے کہنے پر سرپلس بجٹ نہیں چھوڑ سکتی۔‘
واضح رہے کہ یہ خط ایک ایسے موقع پر لکھا گیا ہے جب آئی ایم ایف نے پاکستان کے لیے پروگرام کی منظوری دینے کے لیے پیر کو ایگزیکٹیو بورڈ میٹنگ کا اجلاس بلایا رکھا ہے۔
آئی ایم ایف نے پاکستان کے پروگرام کے لیے ’لیٹر آف انٹنٹ‘ لکھ دیا ہے پیر کو ایگزیکٹیو بورڈ میٹنگ میں حتمی منظوری دی جانی ہے۔
صوبائی وزیر خزانہ کی جانب سے وفاقی وزیر خزانہ کو لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ ’وفاقی حکومت نے اپنے وعدوں پر عمل درآمد نہیں کیا، مجموعی طور پر 100 ارب روپے کے بقایا جات واجب الادا ہیں۔‘‘
انہوں نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’خیبر پختونخوا میں سیلاب کے حوالے سے مفتاح اسماعیل کو خط لکھا ہے، موجودہ صورت حال میں آئی ایم ایف کو فلڈ ریلیف دینا چاہیے۔‘
’سنہ 2010 کے بعد ملک بھر میں سب سے بڑا سیلاب ہے، فلڈ ریلیف میں صوبائی بجٹ سمیت مختلف منصوبوں کا بجٹ لگایا جائے گا۔‘
دوسری جانب سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری کا کہنا تھا کہ ’یہ جو آئی ایم ایف کی ڈیل ہے، ابھی پنجاب اور خیبر پختونخوا کہہ دیں کہ ہم اس ڈیل میں ساتھ نہیں ہیں آپ کے، مجھے آپ آئی ایم ایف سے ڈیل لے کر دکھا دیں۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’یہ جو ڈیل ہے اس کا دارومدار ہی اس بات پر ہے کہ پنجاب اور خیبرپختونخوا جو ہیں وہ اتنا پیسہ وفاق کو بچا کر دیں۔‘
تاہم اس حوالے سے پنجاب حکومت کی جانب سے تاحال کوئی خط یا رابطہ وفاقی حکومت سے نہیں کیا گیا۔
صوبائی حکومت کے انکار سے آئی ایم ایف ڈیل پر کیا فرق پڑے گا؟
معاشی امور پر گہری نظر رکھنے والے سینئیر صحافی خرم حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’اگر صوبائی وزیر خزانہ اپنے مطالبے پر قائم رہے تو خدشہ ہے کہ پیر کو ہونے والی آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ میں پاکستان کے لیے ایک ارب ڈالر کے پروگرام کی منظوری نہ ملے اور معاملہ مزید تاخیر کا شکار ہوجائے۔‘
’آئی ایم ایف کے سرپلس بجٹ کی شرط چاروں صوبوں سے متعلق ہے اور چاروں صوبوں نے اس حوالے سے معاہدے پر دستخط کیے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’خیبر پختونخوا کے وزیر خزانہ نے سر پلس بجٹ کی شرط پر کچھ تحفظات کا اظہار کیا ہے اور وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل پیر کو صوبائی وزیر خزانہ کے ساتھ بیٹھ کر معاملات حل کرنے کی کوشش کریں گے اور امید ہے معاملہ حل کر لیا جائے گا۔‘
انہوں نے خدشے کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ‘اگر صوبائی حکومت اپنے فیصلے پر قائم رہی تو پھر آئی ایم ایف کی ایگزیکٹیو بورڈ میٹنگ آئندہ ماہ تک چلی جائی گی اور پاکستان کو پہلے سے ہی بورڈ میٹنگ کی تاریخ دیر سے ملی ہے۔’
’یہ خدشہ ہے کہ آئی ایم ایف یہ نہ کہہ دے کہ ابھی آپ تیار نہیں ہیں اور اپنے معاملات حل کر لیں اور پھر دوبارہ ہم سے رجوع کریں۔‘
خرم حسین کے مطابق ’اس سے پاکستان کی معیشت پر انتہائی برے اثرات مرتب ہوں گے، قانونی طور پر اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن پروگرام کی منظوری تاخیر کا شکار ہوسکتی ہے۔‘
ان کا کہنا ہے کہ ’پاکستان اس تاخیر کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس سے معیشت کو اتنا نقصان ہوگا کہ خدشہ ہے کہ ڈالر 300 روپے سے بھی بڑھ جائے۔‘
’ہوسکتا ہے کہ آئی ایم ایف اس خط کو نظرانداز کردے لیکن اس کو نظر انداز کرنا مشکل ہے۔ فواد چوہدری کے بیان سے کوئی فرق نہیں پڑے گا لیکن صوبائی وزیر کے خط کا اثر ہوسکتا ہے۔‘
دوسری جانب ماہر معیشت پروفیسر ڈاکٹر ساجد امین کہتے ہیں کہ ’خیبر پختونخوا حکومت کے صوبائی وزیر کی جانب سے اس وقت میں خط سامنے آنا انتہائی افسوس ناک ہے تاہم اس خط سے آئی ایم ایف پروگرام متاثر ہونے کا خدشہ نہیں۔‘
ڈاکٹر ساجد امین کے خیال میں ’خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے جو خط لکھا گیا ہے اس سے پروگرام پر کوئی فرق نہیں پڑے گا چونکہ آئی ایم ایف وفاقی حکومت کے ساتھ مذاکرات کرتا ہے اور وفاقی حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے تو اس لیے اس خط سے آئی ایم ایف کا پروگرام خطرے میں نہیں ہے۔‘
’آئی ایم ایف کو بھی پاکستان کے اندرونی سیاسی معاملات کا اندازہ ہے اور وفاقی حکومت اگر ان کو یقین دہانی کرا رہی ہے تو پھر اس سے فرق نہیں پڑے گا۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے خط جس وقت سامنے آیا یہ درست نہیں، اگر اس طرح کے معاملات وفاق کے ساتھ تھے تو وہ اندرون خانہ حل کر لیے جاتے تو زیادہ بہتر تھا، آئی ایم ایف بورڈ میٹنگ سے دو روز قبل اس طرح کا خط سامنے آنا غلط سگنل دیتا ہے۔‘