کیا سیلاب میں سیاسی جماعتیں بھی امدادی سرگرمیوں میں شامل ہیں؟
کیا سیلاب میں سیاسی جماعتیں بھی امدادی سرگرمیوں میں شامل ہیں؟
جمعہ 2 ستمبر 2022 16:19
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
پاکستان کا ایک تہائی حصہ سیلاب سے متاثر ہے۔ فوٹو: اے ایف پی
پاکستان ان دنوں بدترین سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق ملک کا ایک تہائی حصہ اس وقت پانی کے عتاب کا شکار ہے۔
اقوام متحدہ اور دنیا کے کئی ممالک نے اس سیلابی آفت سے نمٹنے کے لیے امداد بھیجنا شروع کر دی ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتیں کہاں کھڑی ہیں اور ریلیف کے کاموں میں آن گراؤنڈ کیا کام کر رہی ہیں۔
اس سوال کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ پچھلے کئی مہینوں سے ملک کی سیاسی فضا ابر آلود ہے اور دور دور تک سیاسی استحکام آتا دکھائی نہیں دیتا۔
ایک طرف تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان ہیں جنہوں نے باضابطہ اعلان کیا ہے کہ ان کی سیاسی سرگرمیوں میں کوئی کمی نہیں آئے گی۔ وہ آج بھی گجرات میں ایک بڑے جلسے سے خطاب کریں گے۔
دوسری طرف وزیر اعظم شہباز شریف بظاہر روزانہ سیلاب زدہ علاقوں میں نظر آتے ہیں لیکن دو روز قبل انہوں نے اراکین اسمبلی کو عشائیے پر بلا کر عمران خان پر شدید تنقید کی۔
پنجاب کے تین اضلاع راجن پور، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان اس وقت سیلابی ریلوں کی زد میں ہیں۔
مظفر گڑھ سے تعلق رکھنے والے مقامی صحافی عدنان مجتبیٰ نے اردو نیوز کو بتایا کہ سیلاب زدہ علاقوں میں گراؤنڈ پر کوئی سیاسی جماعت ریلیف کا کام کرتی نظر نہیں آ رہی۔
’میں دو روز قبل تونسہ کا پورا علاقہ پھر کر آیا ہوں۔ وہاں صرف مختلف مذہبی جماعتوں کے کارکنان ضرور نظر آرہے ہیں۔ مریم نواز اور یوسف رضا گیلانی بھی ان علاقوں میں آئے ہیں لیکن ان کے ساتھ جو سامان آیا اسے تقسیم کر کے وہ واپس چلے گئے اور جو کارکنان آئے تھے وہ بھی چلے گئے۔‘
انہی علاقوں میں موجود ایک اور خاتون صحافی عفیفہ نصراللہ نے بتایا کہ فیلڈ میں صرف ضلعی انتظامیہ، چند غیر سرکاری تنظیمیں اور مذہبی جماعتیں نظر آ رہی ہیں۔
’ایسا نہیں ہے کہ بے گھر افراد کے لیے کسی سیاسی جماعت نے باقاعدہ کوئی ٹینٹ سٹی بنائی ہو یا ایک مقامی ریلیف سنٹر قائم کیا ہو جہاں امدادی سامان ذخیرہ کر کے وہاں سے آگے متاثرین تک پہنچایا جا رہا ہو۔ بلکہ جو سامان بھیجا جا رہا ہے وہ انہیں تنظیموں یا پھر ضلعی انتظامیہ کے حوالے کیا جا رہا ہے۔‘
پنجاب کے صوبائی دارالحکومت لاہور میں البتہ آپ کو جگہ جگہ سیاسی جماعتوں کے کیمپ دیکھائی دیتے ہیں جہاں بڑے بڑے بینرز لگا کر متاثرین کے لیے سامان اکٹھا کیا جا رہا ہے۔ تحریک انصاف، مسلم لیگ ن اور کئی جگہوں پر پیپلز پارٹی کے بھی امدادی کیمپ نظر آتے ہیں۔
مسلم لیگ ن کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے بتایا کہ وزیراعظم شہباز شریف روزانہ کی بنیاد پر سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کر رہے ہیں اور مریم نواز صاحبہ بھی جنوبی پنجاب کے دورے پر ہیں۔
’پارٹی قائد نواز شریف نے حکم دیا ہے کہ ہر حلقے میں ہمارے پارٹی کارکان اور لیڈران امدادی سامان اکھٹا کریں۔‘
پیپلزپارٹی وسطی پنجاب کے جنرل سیکرٹری حسن مرتضیٰ نے بھی کچھ ایسا ہی بتایا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس وقت پیپلزپارٹی سب سے زیادہ متحرک ہے کیونکہ پنجاب سے بھی زیادہ تباہ کاری سندھ میں ہوئی ہے۔
’ہم نے لاہور سے ملتان تک امدادی کیمپ لگائے ہوئے ہیں اور جیالے امدادی سامان متاثرہ علاقوں میں بھجوا رہے ہیں۔‘
پاکستان تحریک انصاف کے رہنما اعجاز چوہدری کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اس وقت سب سے زیادہ بڑھ کر کام کر رہی ہے۔
’چئیرمین عمران خان نے تین گھنٹوں میں پانچ ارب روپیہ اکھٹا کر لیا۔ آپ دیکھیں ہر جگہ ہمارے کیمپ لگے ہوئےہیں اور ہم امدادی کام کر رہے ہیں۔‘
صوبہ سندھ میں امدادی سرگرمیاں
کراچی سے اردو نیوز کے نمائندے زین علی کے مطابق ملک بھر کی طرح صوبہ سندھ میں بھی سیلاب سے کئی علاقے متاثر ہوئے ہیں، صوبے کے 16 اضلاع میں صورتحال انتہائی خراب ہے جہاں بیشتر علاقوں کے زمینی راستے بھی منقطع ہوگئے ہیں۔
سندھ میں فلاحی اداروں اور حکومت کے ساتھ ساتھ صوبے میں سیاسی جماعتیں بھی سیلاب متاثرین کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، پاکستان تحریک انصاف سمیت دیگر جماعتوں نے شہر کے مختلف مقامات پر سیلاب متاثرین کے لیے امداد جمع کرنے کے لیے کیمپ لگا رکھے ہیں۔
متحدہ قومی موومنٹ پاکستان ایک فلاحی تنظیم ’خدمت خلق فاؤنڈیشن‘ کے تحت سیلاب متاثرین کے لیے امداد جمع کر رہی ہے اور روزانہ کی بنیاد پر سندھ کے شہری علاقوں سمیت دیگر مقامات پر اپنے کارکنان کے ذریعے سیلاب متاثرین تک امداد پہنچا رہی ہے۔
ایم کیو ایم پاکستان کے رہنما امین الحق کا کہنا ہے کہ سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے ان کی جماعت ہر فورم پر کام کر رہی ہے۔
’ہمارے کارکنان سیلاب سے متاثرہ افراد کے گھر گھر جا کر امداد دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ عارضی پناہ گاہوں پر متاثرین کو امداد فراہم کر رہے ہیں۔‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما شرجیل میمن کا کہنا ہے کہ حکومت سندھ اپنی سطح پر سیلاب متاثرین کی مدد کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنان بھی سیلاب متاثرین کے لیے اپنی خدمات سر انجام دے رہے ہیں۔
’ہمارے جیالے سندھ کے تمام اضلاع میں امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ کراچی سمیت دنیا بھر سے لوگ سیلاب متاثرین کی امداد کر رہے ہیں۔ یہ مشکل وقت ہے اس میں ہماری کوشش ہے کہ ایک ایک متاثر تک امداد پہنچائیں۔‘
جماعت اسلامی اپنے فلاحی ادارے الخدمت فاؤنڈیشن کے تحت ریلیف کا کام جاری رکھے ہوئے ہے۔
امیر جماعت اسلامی کراچی حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ دنیا بھر سے لوگ سیلاب متاثرین کی مدد کر رہے ہیں۔
’ہمارے 4 ہزار سے زائد رضاکار امدادی فرائض سر انجام دے رہے ہیں۔ جماعت اسلامی کا ملک بھر میں ایک مضبوط تنظیمی نظام موجود ہے۔ ہم روزانہ کی بنیاد پر امدادی سامان سندھ اور بلوچستان کے لیے روانہ کر رہے ہیں۔ ہمارا پورا نیٹ ورک ہے جو کراچی سےسامان جمع کرنے اور خریدنے سے لے کر متاثرین تک پہنچانے کا کام سرانجام دے رہا ہے۔‘
پاکستان تحریک انصاف بھی سیلاب متاثرین کی امداد کے لیے امدادی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنما خرم شیر زمان کا کہنا ہے کہ پارٹی کی کوشش کے کہ سندھ کے متاثرہ علاقوں کی بحالی کے لیے اقدامات کیے جائیں۔
’ہمارے ورکرز کراچی سمیت مختلف جگہوں پر سیلاب متاثرین کے لیے فنڈز جمع کر رہے ہیں۔ لوگ ہم پر بھروسہ کر رہے ہیں۔ ہمیں امداد دے رہے ہیں۔ لوگ جانتے ہیں کہ یہ امداد متاثرین تک پہنچے گی۔‘
خیبرپختونخوا میں سرگرم تنظیمیں
خیبرپختونخوا میں اردو نیوز کے نمائندے فیاض احمد کے مطابق صوبے کے نو اضلاع سیلاب سے شدید متاثر ہوئے ہیں اور عام عوام کے ساتھ سیاسی جماعتیں بھی ریلیف سرگرمیوں میں حصہ لے رہی ہیں۔ جگہ جگہ پر امدادی کیمپ کے علاوہ راشن اور ضروری اشیاء کی تقسیم کے لیے کیمپ لگائے گئے ہیں۔
ریسکیو کارروائیوں اور امدادی سرگرمیوں میں فلاحی تنظیم الخدمت فاؤنڈیشن پیش پیش ہے۔
ترجمان الخدمت فاؤنڈیشن نورالواحد جدون نے اردو نیوز کو بتایا کہ سیلاب میں الخدمت کے رضاکاروں نے چھ ہزار سے زائد افراد کو ریسکیو کیا۔ اب تک 67 ہزار 842 افراد کو امدادی سامان فراہم کیا جس میں خمیے اور خوارک کی اشیا شامل ہیں۔
الخدمت فاؤنڈیشن نے 32 مختلف مقامات پر میڈیکل کیمپس بھی لگائے گئے ہیں جن میں 9 ہزار 600 مریضوں کا معائنہ کیا گیا۔
صوبے کے متاثرہ اضلاع میں جمعیت علماء اسلام خیبر پختونخوا کی امدادی سرگرمیاں بھی جاری ہیں۔
ترجمان جے یو آئی کے مطابق صوبے میں7 ہزار سے زائد رضارکار عملی طور پر فیلڈ میں کام کر رہے ہیں۔ سیلاب کے فوراً بعد صوبائی سیکرٹریٹ مفتی محمود مرکز پشاور میں مرکزی ریلیف سنٹر قائم کیا گیا تھا جہاں اب تک ایک سو ٹرکوں پر مشتمل سامان تقسیم کیا جا چکا ہے۔
صوبائی جنرل سیکرٹری مولانا عطاءالحق درویش کے مطابق ٹانک، ڈیرہ اسماعیل خان، ہزارہ ڈویژن، کوہستان، مالاکنڈ ڈویژن اور چترال کے لیے امدادی سامان ٹرکوں اور ٹرالوں کے ذریعے متاثرہ اضلاع تک ضلعی تنظیموں کی وساطت سے پہنچایا جا رہا ہے۔
عوامی نیشنل پارٹی کی جانب سے بھی متاثرہ اضلاع میں ریلیف پیکجز تقسیم کیے جا رہے ہیں۔
مرکزی سالار خدائی خدمتگار ڈاکٹر شمس نے اردو نیوز کو بتایا کہ چارسدہ، سوات، ڈی آئی خان اور نوشہرہ میں راشن تقسیم کر رہے ہیں۔
دوسری جانب اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان خود امدادی کیمپ میں بیٹھ کر لوگوں سے امداد کی اپیل کی اور سب سے پہلے خود چندہ دیا۔
پشاور میں پیپلزپارٹی کی جانب سے کبوتر چوک پر امدادی کیمپ لگایا گیا جبکہ سامان کے ٹرک نوشہرہ اور چارسدہ کے متاثرین کے لیے بھیجے گئے۔
دوسری جانب پشاور میں پیپلز پارٹی اور اے این پی کی جانب سے ضمنی انتخابات کے لیے پشاور کے حلقے این اے 31 کی انتخابی مہم بھی جاری ہے جس کو سوشل میڈیا پر صارفین نے تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔
خیبرپختونخوا میں حکمران جماعت پی ٹی آئی کی قیادت بھی سیلاب متاثرہ علاقوں میں متحرک ہے۔
شوکت یوسفزئی ، کامران بنگش ، پرویز خٹک، مراد سعید اور وزیراعلیٰ محمود خان خود مسلسل متاثرہ علاقوں کا دورے کر رہے ہیں۔ تحریک انصاف ورکرز کی جانب سے 30 مختلف مقامات پر کیمپس لگائے گئے ہیں جبکہ انصاف ڈاکٹرز فورم کی جانب سے میڈیکل کیمپ قائم کیے گئے۔
چارسدہ میں متاثرین کی امداد کے لیے قومی وطن پارٹی کے سربراہ آفتاب شیرپاؤ نے امدادی سامان تقسیم کیا تاہم دیگر علاقوں کے لیے ریلیف پیکج تیار کیے جا رہے ہیں۔