خیبرپختونخوا میں ’غربت مٹاؤ‘ کے نام سے شروع کیے گئے منصوبے میں پسماندہ اضلاع نظرانداز کر دیے گئے ہیں جبکہ اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر بیمار مرغیاں تقسیم کرنے کا الزام عائد کیا ہے۔
خیبرپختونخوا حکومت کی جانب سے 14 اکتوبر 2019 کو غربت کے خاتمے کے لیے مرغبانی کا منصوبہ شروع کیا گیا تھا جس کے لیے 80 کروڑ روپے کے فنڈ مختص کیے گئے تھے۔
مزید پڑھیں
-
پولیو وائرس خیبرپختونخوا سے دیگر شہروں تک کیسے پہنچا؟Node ID: 690101
اس سکیم کے تحت فی گھرانہ پانچ مرغیاں اور ایک مرغا تقسیم ہوئے۔ محکمہ لایئو سٹاک کی جانب سے تمام اضلاع میں ان مرغیوں کی تقسیم شروع تو ہوئی مگر اس کی اپنی ہی رپورٹ میں ساری کارکردگی سامنے آ گئی۔
اپوزیشن رکن ایم پی اے ریحانہ اسماعیل کی جانب سے خیبرپختونخوا اسمبلی میں مرغبانی سکیم سے متعلق سوال جمع کروایا گیا جس کے بعد ادارے نے جواب میں سال 2019 سے 2021 تک منصوبے کے اعداد و شمار جمع کیے۔
محکمہ لائیوسٹاک رپورٹ کے مطابق ’مرغبانی کے منصوبے کے پہلے سال 19 اضلاع میں ایک مرغی بھی تقسیم نہ ہو سکی جس میں ضلع مہمند، وزیرستان، اورکزئی، دیر، چترال، ایبٹ آباد، تورغر، کوہستان، بٹگرام اور شانگلہ شامل ہیں۔‘
رپورٹ کے مطابق صوابی میں 2449، بنوں میں 1493، لکی مروت میں 1328، ضلع کرم میں 2440 مرغیاں تقسیم کی گئی اسی طرح ،تورغر میں 1158 اور کوہستان میں 574 مرغیاں تقسیم ہوئیں۔

ڈائریکٹر جنرل محکمہ لائیو سٹاک ڈاکٹر عالم زیب نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’منصوبے کے پہلے سال سرد علاقوں میں موسم کے باعث مرغیوں کی تقسیم نہ ہو سکیں تاہم موسم گرما کے آتے ہی مرغیوں تقسیم ہوئیں۔ منصوبے کے پہلے سال میں پورے فنڈز ریلیز نہیں ہوئے تھے۔ دوسرے سال میں فنڈز ملتے ہی تمام اضلاع میں تقسیم کیے گئے۔‘
ڈی جی لائیو سٹاک نے بتایا کہ ’مرغبانی منصوبے کے لیے اشتہار دیے گئے تھے جس کے بعد شہریوں نے درخواستیں جمع کروائیں، جس نے درخواست ہی جمع نہیں کروائی اس گھرانے کو کیسے مرغیاں تقسیم کریں۔‘
ڈی جی ڈاکٹر عالم زیب کے مطابق ’1050 روپے میں پانچ مرغیاں اور ایک مرغا دے رہے ہیں جبکہ ضم قبائلی اضلاع کے افراد کو مفت میں دیے گئے ہیں۔‘
’اس منصوبے میں 20 فیصد حصہ وفاق کا اور 80 فیصد صوبے کا شامل ہے۔ کسی بھی ضلع کو نظر انداز کرنے کی باتیں غلط ہیں۔ ڈسٹرکٹ کمیٹیاں جانچ پڑتال کے بعد ڈیٹا ارسال کرتی ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ اب تک مرغبانی سکیم سے دو لاکھ 49 ہزار 60 شہری مستفید ہوئے ہیں جس کے تحت 12 لاکھ 29 ہزار 742 مرغیاں تقسیم کی گئیں۔ قبائلی اضلاع میں 20 ہزار سے زائد گھرانوں میں مرغیاں تقسیم ہوئی ہیں۔ تاہم ضم قبائلی اضلاع میں آئی ڈی پیز کی وجہ سے کچھ اضلاع میں تقسیم کم ہوئی۔‘
دوسری خیبرپختونخوا کی اپوزیشن رکن اسمبلی ریحانہ اسماعیل نے صوبائی اسمبلی کے اجلاس میں یہ الزام بھی لگایا کہ ’محکمہ لائیو سٹاک کی جانب سے تقسیم کی گئیں مرغیاں بیمار تھیں جو کچھ دنوں بعد مر گئیں۔‘
