Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

آرمی چیف کی ایکسٹینشن: عمران خان کے بیان پر نہ ختم ہونیوالی بحث

عمران خان کا کہنا ہے کہ ’انہوں نے انٹرویو میں آرمی چیف کو توسیع دینے کی بات نہیں کی (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں پیر کی رات سے میڈیا اور سوشل میڈیا پر سابق وزیراعظم عمران خان کا ایک انٹرویو زیر بحث ہے جس میں انہوں نے رواں سال نومبر میں ہونے والی آرمی چیف کی تقرری کو نئے انتخابات کے انعقاد تک مؤخر کرنے کی بات کی تھی۔
پاکستانی ٹی وی چینل دنیا نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان نے کہا تھا کہ ’ملک میں حکمران جماعتوں کے سربراہان آصف زرداری اور نواز شریف آرمی چیف کی تقرری کرنے کے اہل نہیں ہیں۔‘
اسی انٹرویو میں ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے آرمی چیف کا انتخاب نئی منتخب حکومت کرے، اگر مخالفین الیکشنز جیت جاتے ہیں تو پھر وہ نئے سپہ سالار کا انتخاب کر لیں۔‘
اس سوال پر کہ کیا تب تک موجودہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کو توسیع دے دی جائے پر عمران خان کا کہنا تھا کہ ’میں نے اس پر تفصیل سے نہیں سوچا۔‘
عمران خان کے اس انٹرویو کے بعد میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ بحث چھڑگئی کہ کیا سابق وزیراعظم موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں ایک اور توسیع کی تجویز دے رہے ہیں؟
اس انٹرویو کے بعد پی ٹی آئی کے رہنماؤں کے بھی متضاد بیانات سامنے آئے۔ پی ٹی آئی کے رہنما اور سابق وزیر برائی انسانی حقوق شیریں مزاری نے انٹرویو کی ویڈیو کو شیئر کر کے لکھا کہ ’پاکستان مسلم لیگ ن ’جان بوجھ‘ کر عمران خان کے بیان کو غلط مطلب دے رہی ہے۔‘
ایک طرف شیریں مزاری سابق وزیراعظم کے انٹرویو کو غلط معنی پہنائے جانے پر مخالفین پر تنقید کر رہی تھیں تو دوسری طرف انہی کی پارٹی سے تعلق رکھنے والے فواد چوہدری ’اسٹیبلشمنٹ کے موجودہ سٹیٹس کو‘ کو برقرار رکھنے کی بات کر رہے تھے۔
انہوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں عمران خان کے انٹرویو میں ہونے والی بات چیت پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’عمران خان نے ملک کے سیاسی مستقبل اور جمہوریت کی بحالی کا ایک عملی فارمولا پیش کیا ہے۔‘
فواد چوہدری کا مزید کہنا تھا کہ ’اس فارمولے پر آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔ ملک کی اقتصادی حالت مزید سیاسی عدم استحکام کا بوجھ نہیں اٹھا سکے گی۔ انتخابات کرانے کے لیے اسٹیبلشمنٹ کا موجودہ سٹیٹس برقرار رکھا جا سکتا ہے۔‘
خیال رہے کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا مطلب اکثر ’ملک کی فوج‘ ہی سمجھا جاتا ہے۔
اپنے انٹرویو پر قیاس آرائیاں دیکھنے کے بعد منگل کی شام عمران خان نے بھی صحافیوں سے ایک ملاقات میں وضاحت جاری کی۔
ان کا کہنا تھا کہ ’میں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کی بات نہیں کی، صرف یہ کہا تھا کہ نیا آرمی چیف نئی آنے والی حکومت تعینات کرے اور اس وقت تک یہ معاملہ موخر کر دیا جائے۔
عمران خان کے وضاحتی بیان کے باوجود سوشل میڈیا پر صارفین کنفیوژن کا شکار نظر آرہے ہیں۔ بلال غوری نے اپنی ٹویٹ میں سوال اٹھایا کہ ’حکومت کے قیام تک آرمی چیف تعینات نہ کرنے کا مطلب ایکسٹینشن نہیں تو اور کیا ہے؟‘
اتحادی حکومت میں سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اور سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا کہنا ہے کہ ’آرمی چیف کا تقرر ملک کے وزیراعظم کرتے ہیں اور وزیراعظم ہی کریں گے۔‘
ٹوئٹر پر ایک یہ سوال بھی سامنے آیا کہ کیا آرمی چیف کی مدت ملازمت پوری ہونے اور نئی تقرری کے دوران جو وقفہ ہے اس میں فوج کا چیف کون ہوگا؟
صحافی اکبر باجوہ نے سوال کیا کہ اس دوران ’سینیئر ترین لیفٹیننٹ جنرل قائم مقام چیف کے طور پر کام کر سکتا ہے؟‘
شاہد خاقان عباسی نے جیو نیوز کے پروگرام میں بات کرتے ہوئے کہا کہ ’میرا نہیں خیال کہ (آرمی چیف کی مدت ملازمت میں) توسیع زیر غور ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ ‘میرا نہیں خیال کہ موجودہ آرمی چیف بھی ایکسٹینشن کے خواہاں ہیں۔‘

شیئر: