’ایجنسیوں کا معلومات اکٹھی کرنے کا نظام درست نہیں‘
’ایجنسیوں کا معلومات اکٹھی کرنے کا نظام درست نہیں‘
منگل 13 ستمبر 2022 16:00
زبیر علی خان -اردو نیوز، اسلام آباد
عمران خان کا کہنا تھا کہ ’آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ الیکشن تک موخر کیا جائے‘ (فوٹو: عمران خان فیس بک)
سابق وزیراعظم اور پاکستان تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ’پاکستان میں خفیہ ایجنسیوں کا معلومات اکٹھی کرنے کا نظام درست نہیں ہے۔‘
’یہ تو سروے کیے بیٹھے تھے کہ لوگ مہنگائی سے تنگ ہیں لیکن عوام تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد سڑکوں پر نکل آئے۔‘
منگل کو بنی گالہ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے سابق وزیراعظم کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس صوبوں میں حکومت ہے لیکن بُوٹ نہیں، جب تک پیچھے سے بُوٹ نہ لگیں کام ہی نہیں ہوتا۔‘
سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ‘میں معیشت کی وجہ سے عوام کو سڑکوں پر نہیں نکال رہا کیونکہ جب عوام سڑکوں پر نکلیں گے تو یہ کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے۔‘
’ یہ مجھے مجبور کر رہے ہیں کہ میں عوام کو باہر نکالوں اور ستمبر میں ہی میں عوام کو باہر نکلنے کی کال دوں گا۔‘
صحافیوں سے گفتگو کے دوران عمران خان پراعتماد نظر آئے اور بغور سوالات سنتے رہے۔ اس دوران ان کی انگلیاں دونوں ہاتھوں سے تھامے تسبیح کے دانے گھماتی رہیں۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’عدلیہ اور فوج کے اندر تعیناتی میرٹ پر ہونی چاہیے۔ عدلیہ کو بھی خود ایک نظام وضع کرنا چاہیے جس کے اندر میرٹ ہو۔‘
’نئے آرمی چیف کی تعیناتی کا معاملہ انتخابات تک موخر کیا جائے‘
سابق وزیراعظم اور تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے آرمی چیف کی تعیناتی سے متعلق کہا کہ ’آرمی چیف کی مدت ملازمت کا معاملہ الیکشن تک موخر کیا جائے۔‘
’اس وقت ملک کا سب سے اہم مسئلہ نئے شفاف انتخابات ہیں موجودہ حکومت کی اہلیت ہی نہیں کہ وہ نئے آرمی چیف کو تعینات کرے۔‘
انہوں نے وضاحت کی کہ ’میں نے آرمی چیف کی مدت ملازمت کی توسیع کی بات نہیں کی، صرف یہ کہا تھا کہ نیا آرمی چیف نئی آنے والی حکومت تعینات کرے اور اس وقت تک یہ معاملہ موخر کر دیا جائے۔‘
مارچ تک انتخابات ملتوی کرنے کے فارمولے کو رد کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’دسمبر تک انتخابات ہو جانے چاہییں۔ یہ بالکل بھی قابل قبول نہیں کہ الیکشنز کو مارچ تک کھینچا جائے۔ اِس وقت ملکی مسائل کا حل فوری صاف اور شفاف انتخابات کروانا ہے۔‘
اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات پر ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ اگر پاکستان کے حق میں ہے تو میں ان کے ساتھ ہوں، میں ہر اس ادارے کے ساتھ ہوں جو پاکستان کے مفادات کا دفاع کرتا ہے۔ جو ذاتی مفاد کی خاطر ملک کو نقصان پہنچائے گا میں اس کے خلاف کھڑا ہو جاؤں گا۔‘
انہوں نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’اسٹیبلشمنٹ کی آڑ میں آکر قومی سلامتی کو کوئی نقصان پہنچائے تو میں یہ برداشت نہیں کر سکتا، پاکستان کے اداروں کو اگر پاکستان کی فکر ہے تو میں ساتھ کھڑا ہوں لیکن یہاں چند ذاتی مفاد کے لیے۔۔۔‘
ذاتی مفاد کا ذکر کرتے ہوئےعمران خان رُکے اور پھر زور دے کر بولے کہ ’میں پھر کہہ رہا ہوں ذاتی مفاد، تھوڑے سے لوگ نے ذاتی مفاد کے لیے ملک کو تباہی کی طرف لے جا رہے ہیں۔‘
’میرے پاس اس کے علاوہ کوئی آپشن نہیں کہ میں لوگوں کو باہر نکلنے کی کال دوں اور میں اس طرف جا رہا ہوں کہ ان ذاتی مفاد کے لوگوں کے نام سب کو بتا دوں۔‘
’یہ کمزور ترین حکومت ہے‘
ملاقات کے اختتامی مرحلے میں عمران خان نے ہاتھوں میں پکڑی تسبیح جیب میں ڈالی اور انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولے ‘میں نے آپ لوگوں کو کیوں بلایا، دیکھیں اس وقت معاشرے میں واضح تقسیم ہے۔‘
’ایک طرف وہ لوگ ہیں جو پاکستان کا سوچ رہے ہیں اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جو اس نظام سے فائدہ اٹھانے والے ہیں۔ یہ لوگوں کو خوفزدہ کرتے ہیں، سب خوف سے ڈرتے ہیں میری پارٹی کے اندر بھی لوگ خوفزدہ ہو جاتے ہیں، شریف آدمی خوفزدہ ہی ہوتا ہے۔‘
سابق وزیراعظم نے کہا کہ ’یہ حکومت اسٹیبلشمنٹ کے بغیر کچھ بھی نہیں، یہ کمزور ترین حکومت ہے اور اب تو آئی ایم ایف نے بھی یہ کہہ دیا ہے کہ یہ کمزور ترین حکومت ہے۔ جو مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے وہ پاکستان کی تاریخ میں کبھی نہیں ہوا۔ اس وقت عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوچکا ہے۔‘