انڈیا: طالبات کی نازیبا ویڈیوز کا معاملہ، چندی گڑھ یونیورسٹی سنیچر تک بند
انڈیا: طالبات کی نازیبا ویڈیوز کا معاملہ، چندی گڑھ یونیورسٹی سنیچر تک بند
پیر 19 ستمبر 2022 10:13
پولیس حکام کا کہنا ہے کہ طالبہ کی جانب سے خودکشی کی کوشش کا دعوٰی غلط ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
انڈیا کی ریاست چندی گڑھ میں یونیورسٹی کے گرلز ہاسٹل کی مبینہ قابل اعتراض ویڈیوز لیک ہونے کے بعد طالبات کا احتجاج جاری ہے جبکہ دوسری جانب یونیورسٹی کو بند کر دیا گیا ہے اور وارڈن راجویندر کور کو بھی معطل کر دیا گیا ہے۔
این ڈی ٹی وی کے مطابق ویڈیو میں وارڈن کو ایک ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وارڈن مبینہ طور پر ہاسٹل کی ویڈیو کسی کو بھجوانے کے الزام میں گرفتار لڑکی کے ساتھ بات چیت کرتی دیکھی جا سکتی ہیں۔ ان پر پولیس کو بروقت مطلع نہ کرنے کا الزام ہے جبکہ انہوں نے احتجاج پر لڑکیوں کے ساتھ بری طرح ڈانٹ ڈپٹ بھی کی تھی۔
اس معاملے میں اب تک تین افراد کو گرفتار کیا جا چکا ہے، طالبات کے احتجاج کے بعد شملہ سے تعلق رکھنے ایک لڑکی اور ان کے بوائے فرینڈ کو گرفتار کیا گیا۔
23 سالہ سنی مہتا ایک ٹریول ایجنسی کے لیے کام کرتی ہیں جبکہ ایک اور شخص کو بھی گرفتار کیا گیا ہے جو کہ ایک بیکری میں کام کرتے ہیں۔ ویڈیوز لیک ہونے کے حوالے سے ابھی ان کا کردار ابھی واضح نہیں ہے۔
طالبات نے ضلعی انتظامیہ اور پولیس کی جانب سے شفاف تحقیقات کے بعد احتجاج ختم کر دیا تھا۔
موہالی پولیس کے اعلیٰ عہدیدار نرویت سنگھ ورک کا کہنا ہے کہ گرفتار ہونے والی خاتون کے موبائل فون سے صرف چار ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں جن پر الزام ہے کہ طالبات کی ویڈیوز بنا کر کسی کو بھجواتی ہیں، تاہم وہ سب اسی خاتون کی ہیں جو انہوں نے اپنے بوائے فرینڈ کو بھجوائیں۔
انہوں نے احتجاج کرنے والی طالبات کی جانب سے خودکشی کی کوشش کے واقعے کو غلط قرار دیتے ہوئے کہا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ طالبات کی جانب سے جن ویڈیوز کا دعویٰ کیا جا رہا ہے وہ ابھی تک سامنے نہیں آئی ہیں۔
دوسری جانب طالبات نے پولیس کے اس موقف کو ماننے سے انکار کیا ہے کہ ابتدائی تحقیقات میں ایسی کوئی بات نہیں آئی کہ واش روم میں طالبات کی ویڈیوز بنائی گئیں۔
خیال رہے 18 ستمبر کو لیک ویڈیو کی خبر سامنے آنے کے بعد طالبات نے شدید احتجاج کیا تھا۔
انڈین میڈیا پر چلنے والی ویڈیوز میں کچھ لڑکیوں کو احتجاج میں شامل ہونے کے لیے دروازے پھلانگتے ہوئے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
یہ احتجاج سنیچر کی رات اس وقت شروع ہوا جب چندی گڑھ یونیورسٹی کے ہاسٹل میں ایک طالبہ کی مبینہ نازیبا ویڈیو لیک ہونے پر خودکشی کی خبریں گردش کرنے لگیں۔
سوشل میڈیا پر چلنے والی ان خبروں میں یہ بھی دعویٰ کیا جاتا رہا کہ ہاسٹل میں رہنے والی ایک لڑکی کے فون سے تقریباً 60 لڑکیوں کی نازیبا ویڈیوز برآمد ہوئی ہیں۔
تاہم یونیورسٹی انتظامیہ نے ایک بیان میں طالبات کی ویڈیوز بننے یا خودکشی کی کوشش سے متعلق چلنے والی خبروں کی تردید کی ہے۔
یونیورسٹی انتظامیہ کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ ’کسی بھی لڑکی کی کوئی نازیبا ویڈیو نہیں بنائی گئی سوائے ایک لڑکی کے جس نے خود ویڈیو بنائی اور اپنے دوست سے شیئر کی۔‘