بنگلہ دیش، ’اپوزیشن کے چار ہزار کارکنوں پر مقدمات درج کیے گئے‘
پولیس کا کہنا ہے کہ کم از کم تین مظاہروں میں چار افراد ہلاک ہوئے (فوٹو: اے ایف پی)
بنگلہ دیش میں وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کی مخالف سیاسی جماعت نے کہا ہے کہ تشدد کے ’جعلی‘ مقدمات میں حکومت کی جانب سے اس کے ہزاروں کارکنوں پر مقدمات درج کیے گئے ہیں۔
فرانسیسی نیوز ایجنسی اے ایف پی کے مطابق بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی نے حالیہ مہینوں میں ملک بھر میں لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجی مظاہرے کیے اور غیر جانبدار نگران حکومت کی نگرانی میں الیکشن کا مطالبہ کیا ہے۔ چند مظاہروں میں تشدد بھی دیکھا گیا ہے۔
بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی کے ترجمان سائر الکبیر خان نے کہا کہ ’22 اگست سے پولیس نے چار ہزار 81 کارکنوں اور لیڈروں پر تشدد کے الزام میں جعلی مقدمات درج کیے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’بنگلہ دیش نیشلسٹ پارٹی کے دیگر 20 ہزار حمایتیوں پر بھی مقدمات درج ہوئے جن کی شناخت نہیں ہو سکی۔‘ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی کارکنوں کے مطابق اس طرح کے ہتھکنڈوں سے پولیس کو موقع ملتا ہے کہ وہ اپوزیشن کو ہراساں کر سکے۔
ترجمان کے مطابق مظاہرے میں ان کے پانچ کارکن ہلاک جبکہ دو ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔
سائر الکبیر نے کہا کہ ’مظاہرے کے دوران حکمران جماعت کے ڈنڈا بردار کارکنوں کے تشدد کے وقت پولیس نے مداخلت نہیں کی تھی لیکن جب ہم ردعمل دکھاتے تھے تو پولیس کارروائی کرتی تھی۔‘
پولیس کا کہنا ہے کہ کم از کم تین مظاہروں میں چار افراد ہلاک ہوئے لیکن تشدد کا الزام اپوزیشن پر لگایا گیا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے پیر کو ’بڑی تعداد میں گرفتاریوں حزب مخالف کے گھروں میں چھاپے مارنے پر‘ تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہیومن رائٹس واچ کی جنوبی افریقہ کی ڈائریکٹر میناکشی گنگولی کا کہنا تھا کہ ’یہ دسمبر 2023 میں آنے والے الیکشن سے قبل دی جانے والی دھمکیاں ہیں۔‘
واضح رہے کہ گزشتہ دسمبر امریکہ نے سینکڑوں جبری کمشدگیوں اور ہزاروں ماورائے عدالت قتل کرنے پر بنگلہ دیش کی سکیورٹی فورسز پر پابندیاں لگائی تھیں۔ تاہم حکومت نے اس کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کے ساتھ مڈبھیڑ میں جرائم پیشہ افراد کو مارا گیا۔