انسانی سمگلنگ روک کر ملازمتوں کا کوٹہ لیں، یورپی یونین کی پاکستان کو پیشکش
انسانی سمگلنگ روک کر ملازمتوں کا کوٹہ لیں، یورپی یونین کی پاکستان کو پیشکش
جمعرات 26 دسمبر 2024 11:48
بشیر چوہدری، اردو نیوز۔ اسلام آباد
سنہ 2019 میں 32 لاکھ پاکستانی بیرون ملک روزگار کے لیے گئے تھے۔ فائل فوٹو: اے پی پی
یورپی یونین نے پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ انسانی سمگلنگ روکیں اور مہارت یافتہ ورکرز تیار کرنے کی صورت میں یورپی ممالک میں پاکستانیوں کے لیے ملازمتوں کا کوٹہ مختص کیا جا سکتا ہے۔
اس بات کا انکشاف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اوورسیز پاکستانیز کے اجلاس میں متعلقہ وزارت نے کیا ہے۔
اجلاس کو بریفنگ میں سیکریٹری وزارت اوورسیز پاکستانیز ڈاکٹر ارشد محمود نے بتایا کہ ’دنیا بھر کی لیبر مارکیٹ میں مہارت یافتہ ورک فورس کی طلب بڑھ رہی ہے۔ جتنے لوگ بھی مہارت رکھتے ہیں یا پیشہ وارانہ تعلیم حاصل کرتے ہیں انھیں دنیا کے ممالک میں چار سے چھ ہزار ڈالر ماہانہ ملازمت مل رہی ہے جبکہ غیر تربیت یافتہ مزدور کی تنخواہیں اتنی زیادہ نہیں۔ کویت اور سعودی عرب میں نرسوں کی تنخواہیں تین سے پانچ ہزار ڈالر ہیں۔‘
انھوں نے کمیٹی کو بتایا ہے کہ ’اس مقصد کے لیے ضروری ہے کہ ہم مہارت یافتہ لیبر فورس تیار کریں جس کے لیے وزارت اوورسیز، ٹیکنیکل ایجوکیشن، ٹیوٹا اور کچھ دیگر اداروں کو ایک چھتری تلے جمع کرنے کی ضرورت ہے۔ وزیراعظم نے اس حوالے سے کابینہ کمیٹی بھی بنائی ہے تاکہ کوئی بہتر حل نکالا جا سکے۔‘
سیکریٹری اوورسیز نے بتایا کہ ’پاکستان میں اس وقت سات کروڑ کی لیبر فورس ہے جنھیں ہر صورت کام کرنا چاہیے لیکن اس میں چند لاکھ ہی مہارتیں رکھتے ہیں۔ یورپ کہتا ہے کہ سمگلنگ روکیں اور بامہارت لیبر فورس تیار کر کے یورپی ممالک میں پاکستان کے لیے نوکریوں کا کوٹہ حاصل کر لیں۔ اب ہمیں اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے دنیا بھر میں موجود لیبر مارکیٹ میں نوکریوں کی تلاش شروع کر رکھی ہے۔ ان نوکریوں کے لیے مطلوبہ اہلیت بھی دیکھ رہے ہیں اور اسی مطلوبہ اہلیت کی روشنی میں مقامی طور پر ورک فورس تیار کریں گے۔‘
کمیٹی میں انکشاف ہوا کہ کئی ممالک میں پاکستانی نرسوں کی ڈیمانڈ میں اضافہ ہو رہا ہے لیکن مقامی سطح پر نرسنگ کونسل کے تنازعات کے باعث پاکستان اس شعبے میں اپنا جائز حصہ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے۔
سیکریٹری اوورسیز نے ارکان کی جانب سے سوالات کے جواب دیتے ہوئے بتایا کہ ’دنیا میں جہاں کہیں بھی پاکستانی تربیت یافتہ ورکرز موجود ہیں ان کو کام کرنے اور اپنا آپ منوانے کی عادت ہے۔ کئی ممالک سے فیڈ بیک ملا ہے کہ جہاں پاکستانی تربیت یافتہ ورکرز کام کرتے ہیں وہاں کمپنی کا اوورٹائم کا خرچہ آدھا رہ گیا ہے کیونکہ پاکستانی ورکرز کئی ایک کام از خود کر لیتے ہیں، کئی کام جگاڑ کے ذریعے ٹھیک کر دیتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’اوورسیز ملازمتوں کا بنیادی مقصد ترسیلات زر میں اضافہ ہے۔ گزشتہ ایک سے دو سال میں پانچ ارب ڈالر کا اضافہ ہوا ہے اور اگلے دس سال میں اس کو 31 ارب ڈالر سے بڑھا کر 64 ارب ڈالر کا ہدف طے کیا ہے۔ یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم مربوط انداز میں اگے بڑھیں اور تربیت یافتہ ورک فورس تیار کریں۔‘
اجلاس کے دوران پاکستان اوررسیز پروموٹرز ایسوسی ایشن کے نمائندے نے بتایا کہ ’ایئرپورٹس پر کنفرم ٹکٹ والے ورکرز کو روکا گیا اور ان کو واپس بھیج دیا گیا۔ اس طرح کی کارروائیاں کرنے والوں کے خلاف آرٹیکل 6 لگانا چاہیے جو ترسیلات زر کے راستے میں روڑے اٹکاتے ہیں۔ ایف آئی اے اپنے مفادات کے چکر میں ایسی کارروائیاں کرتا ہے۔‘
اس شکایت کا نوٹس لیتے ہوئے کمیٹی نے ایف آئی اے کے ڈی جی کو طلب کرنے سمیت متعلقہ حکام کے خلاف ثبوت بھی مانگ لیے۔ سیکریٹری اوورسیز کا کہنا تھا کہ ایسی کارروائی صرف اس صورت میں ہوتی ہے کہ جب مسافر ایف آئی اے کے سوالات کے مناسب جواب نہ دے سکے اور امیگریشن آفیسر کو مطمئن نہ کر سکے۔