پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں 50 فیصد کمی، وجوہات کیا ہیں؟
پاکستان میں گاڑیوں کی فروخت میں 50 فیصد کمی، وجوہات کیا ہیں؟
جمعرات 13 اکتوبر 2022 18:03
زین علی -اردو نیوز، کراچی
ایک ہزار سی سی سے کم ہارس پاور کی گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)
پاکستان میں مقامی سطح پر اسمبل ہونے والی گاڑیوں کی فروخت میں رواں برس 50 فیصد تک کمی کا انکشاف ہوا ہے۔
کار اسمبلرز کا کہنا ہے کہ ملک میں سیلابی صورتحال کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں کمی رپورٹ ہو رہی ہے۔ جبکہ پاکستان میں سی کے ڈی کی درآمد پر عائد پابندیوں کی وجہ سے مقامی سطح پر گاڑیوں کی اسمبلنگ متاثر ہوئی ہے۔
پاکستان آٹوموبائل مینوفیکچرر ایسوسی ایشن کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق ’رواں برس گاڑیوں کی فروخت میں نمایاں کمی دیکھی جا رہی ہے۔ اگست 2021 میں ایک ہزار سی سی کی چار ہزار 524 گاڑیاں فروخت ہوئی تھی جبکہ رواں برس اگست کے مہینے میں صرف 776 گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ اسی طرح ستمبر 2021 میں چار ہزار 734 گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں اور رواں برس ستمبر کے مہینے میں 1517 گاڑیاں فروخت ہوئیں۔‘
اس کے علاوہ ایک ہزار سی سی سے کم ہارس پاور کی گاڑیوں کی فروخت میں بھی کمی واقع ہوئی ہے۔ ’سال 2021 اگست میں کل 17 ہزار 899 گاڑیاں فروخت ہوئی تھی اور رواں برس اگست کے مہینے میں آٹھ ہزار 980 گاڑیاں فروخت ہوئیں۔ ستمبر 2021 میں 18 ہزار 971 یونٹ بکے تھے اور رواں سال ستمبر کے آخر تک صرف نو ہزار 213 گاڑیاں فروخت ہوئیں۔‘
گزشتہ برس 13 سو سی سی اور اس سے اوپر ہارس پاور کی اگست کے مہینے میں کل سات ہزار 247 گاڑیاں فروخت ہوئی تھیں جبکہ رواں سال اگست کے مہینے میں پانچ ہزار 485 یونٹ فروخت ہوئے۔ اسی طرح گزشتہ برس ستمبر میں آٹھ ہزار 803 گاڑی فروخت ہوئی تھیں لیکن رواں سال ستمبر میں یہ تعداد چار ہزار 715 رہی۔
انڈس موٹر کمپنی کے سی ای او علی اصغر جمالی نے اردو نیوز کو بتایا کہ گاڑیوں کی فروخت میں کمی کی بنیادی وجہ ملک میں سیلابی صورتحال ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ملک میں سیلابی صورتحال کی وجہ سے گاڑیوں کی فروخت میں 50 فیصد تک کمی دیکھی گئی ہے۔‘
علی اصغر جمالی کے مطابق ’پاکستان میں سی کے ڈی کی درآمد پر عائد پابندیوں کی وجہ سے مقامی سطح پر گاڑیوں کی اسمبلنگ بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔ ہمیں اس بات کا ادراک ہے کہ متعدد بین الاقوامی اور ملکی عوامل کی وجہ سے متاثرہ معیشت کی حالت درست کرنے کے لیے سخت اقدامات کی ضرورت ہے اور وفاقی حکومت معیشت کی بحالی کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے۔‘
’ہم حکومت کی جانب سے اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت کرتے ہیں تاہم امپورٹ بل میں آٹو سیکٹر کا حصہ صرف تین فیصد ہے۔ سی کے ڈی کی امپورٹ پر پابندی سے جاری کھاتے کے خسارے کو کم کرنے میں نمایاں مدد نہیں مل سکتی۔‘
انہوں نے کہا کہ جہاں ایک جانب کاروں کی فروخت میں کمی نہ صرف انڈسٹری کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ خود حکومت کو بھی سال بھر میں ایک ارب 50 کروڑ ڈالر کے نقصانات کا سامنا کرنا ہو گا کیونکہ کاروں کی اوسط قیمتوں میں ٹیکسز اور محصولات کا حصہ 39 فیصد کے لگ بھگ ہے۔
اصغر جمالی کا کہنا ہے کہ ہر طرح کی درآمدات ایک ہی نوعیت کی نہیں ہوتیں، اس لیے اتھارٹیز کو امپورٹ کی جانے والی اشیا کی درجہ بندی کرنا ہو گی اور لگژری آئٹمز کی امپورٹ پر پابندیاں لگاتے ہوئے مقامی پیداوار کے لیے ضروری درآمدات کی اجازت دینا ہو گی۔
’امپورٹ اور ایل سی پر پابندیوں سے تقریباً تمام گاڑیاں بنانے والی کمپنیاں متاثر ہو رہی ہیں اور اضافی عرصہ کے لیے پلانٹ بند کرنا پڑ رہے ہیں جس سے ان کی پیداواریت اور فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی بری طرح متاثر ہو رہی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ انڈس موٹر کمپنی نے حال ہی میں مقامی سطح پر ہائی برڈ گاڑیوں کی پیداوار اور 2023 میں کرولا کراس گاڑیاں متعارف کرانے کے لیے 10 کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔
یاد رہے کہ گزشتہ سال آٹو سیکٹر کا امپورٹ بل میں حصہ دو ارب 50 کروڑ ڈالر رہا ہے۔ جبکہ ملکی کھاتے کے خسارے میں پیٹرولیم مصنوعات اور خوراک کی درآمدی بل کی مالیت 27 ارب ڈالر کے لگ بھگ رہی۔