انڈیا کی ’جوہری ڈیٹرنس کی صلاحیت‘ کا تجربہ اسے اُن چھ ممالک میں سے ایک بناتا ہے جو زمین، سمندر اور فضا میں ایٹمی حملے اور جوابی حملہ کر سکتے ہیں۔
دیگر ملکوں میں امریکہ، برطانیہ، روس، فرانس اور چین شامل ہیں۔
آبدوز سے لانچ کیے جانے والے اس بیلسٹک میزائل کے تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ انڈیا مقامی طور پر فوجی سامان بنانے پر زور دے رہا ہے۔
انڈیا دنیا میں ہتھیاروں کے سب سے بڑے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے اور اب بھی ماسکو کے فوجی سامان پر بہت زیادہ انحصار کرتا ہے، جو دہائیوں سے اس کا سب سے بڑا اور قدیم ترین فوجی سپلائر ہے۔
وزارت دفاع کے بیان کے مطابق یہ تجربہ ’عملے کی اہلیت کو ثابت کرنے اور بیلسٹک میزائل آبدوزوں کی توثیق کے حوالے سے اہم ہے جو انڈیا کی جوہری دفاعی صلاحیت کا بنیادی عنصر ہے۔‘
بیان میں مزید کہا گیا کہ خلیج بنگال میں آئی این ایس اریہانت سے فائر کیے گئے ’ہتھیاروں کے نظام کے تمام آپریشنل اور تکنیکی پیرامیٹرز‘ کی کامیاب تصدیق ہوئی۔
انڈیا نے ماضی میں جنگیں لڑی ہیں اور اس کے جوہری ہتھیاروں سے لیس پڑوسیوں روایتی حریف پاکستان اور چین کے ساتھ دیرینہ سرحدی تنازعات ہیں۔
وزیراعظم نریندر مودی کی حکومت نے حال ہی میں انڈین ساختہ حملہ آور ہیلی کاپٹروں کی پہلی کھیپ آرمی کے حوالے کی ہے، جسے ہمالیہ جیسے اونچائی والے علاقوں میں استعمال کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے جہاں سنہ 2020 میں چین کے ساتھ اس کی فوجی جھڑپیں ہوئی تھیں۔
ستمبر میں انڈیا نے اپنا پہلا مقامی طور پر بنایا ہوا طیارہ بردار بحری جہاز متعارف کرایا جو خطے میں چین کی بڑھتی فوجی طاقت کا مقابلہ کرنے کی کوششوں میں ایک سنگ میل ہے۔
آئی این ایس وکرانت دنیا کے بڑے بحری جہازوں میں سے ایک ہے جس کی لمبائی 262 میٹر (860 فٹ) ہے اور 17 سال کی انجینئرنگ اور تجربات کے بعد نیوی کے حوالے کیا گیا۔