لندن ..... خراٹا ایک عجیب قسم کا نیم جسمانی اور نیم نفسیاتی مرض ہے جس پر ہزار کوشش کے باوجود انسان آج تک مکمل قابو نہیں پاسکا۔ اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً بہت سی دوائیں اور میڈیکل ایڈز سامنے آتی رہیں لیکن کوئی بھی زیادہ کارگر ثابت نہیں ہوئی۔ بعض چیزوں کے وقتی فوائد ضرور سامنے آئے مگر انسان جب انکا عادی ہوگیا تو ان دواﺅں کی اثر آفریدنی ختم ہوگئی۔ صورتحال کے پیش نظر اب سائنسدانوں نے ایک انقلاب آفریں ڈیوائس تیار کرنے کا دعویٰ کیا ہے جو مقناطیسی ہنسلی کے طور پر کام کرتی ہے اور یہ ڈیوائس نیند کی حالت میں سانس کی نالی کو کھلا رکھنے میں نمایاں طور پر مدد گار ثابت ہوتی ہے۔ واضح ہو کہ خراٹے میں مبتلا افراد کی تعداد صرف برطانیہ میں 15لاکھ سے زیادہ بتائی جاتی ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ایک عالمی مسئلہ ہے جو او ایس اے نامی طبی کیفیت کے نتیجے میں سامنے آتی ہے کیونکہ اس طرح حلق میں موجود ٹشو متحرک رہنا رفتہ رفتہ چھوڑ دیتے ہیں اور پھر نیند کے دوران یہ بالکل ساکت ہوجاتے ہیں جس کے نتیجے میں خراٹے نکلنے لگتے ہیں۔ طبی نکتہ نظر سے انسان ایک رات میں سیکڑوں بار خراٹے لے سکتا ہے اور لیتا ہے تاہم اس سے اس کی زندگی بڑی حد تک اجیرن ہوجاتی ہے اور وہ ہائی بلڈ پریشر اور امراض قلب کی زد میں آجاتا ہے کیونکہ خون میں آکسیجن کی فراہمی بھی اس کے ساتھ رک جاتی ہے۔خراٹے کے مریضوں میں خارش، بے آرامی اور تنفس کی رفتار تیز ہونے کی علامتیں بھی پائی جاتی ہیں۔نئی ڈیوائس کو میکنیپ سسٹم کانام دیا گیاہے۔یہ بیماری یا کیفیت انسان کے علاوہ بہت سے نیم انسانی حیاتیات کے حاملوں میں بھی ہوتی ہے۔ شیفلڈ اسپتال کے ای اینڈ ٹی اسپیشلسٹ پروفیسر جگدیپ رائے نے نئی ڈیوائس کو میڈیکل سائنس کی بہت بڑی کامیابی قرار دیا ہے۔