ہم بین الاقوامی ٹیموں کے تعاون سے مزید بصیرت انگیز نتائج کے منتظر ہیں۔ فوٹو عرب نیوز
العلا میں رائل کمیشن کی جانب سے سپانسر شدہ مطالعات سے ایسےمنفرد طریقوں کے بارے میں دلچسپ شواہد ملے ہیں جو مقامی لوگوں نے ہزاروں سال قبل جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے استعمال کیے تھے۔
عرب نیوز کے مطابق آرکیالوجیکل سائنس کے شمارے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں پتھروں سے بنی مختلف اشکال کا انکشاف ان پائلٹوں کی جانب سے بھی ہوا ہے جنہوں نے 1920 کی دہائی میں اس خطے کے اوپرسے پرواز کی تھی۔
تحقیقی منصوبے کی سرپرستی العلا کی رائل کمیشن کر رہی ہے۔ فوٹو ٹوئٹر
صحرا میں موجود ایسی منفرد اشکال کی تحقیق کے ماہر ڈاکٹر ریمی کراسارڈ کے مطابق جنوبی اردن میں 7000 قبل مسیح میں اس طرح کی قدیم ترین مثالیں ملتی ہیں۔
ماہر تحقیق کا کہنا ہے کہ شمال مغربی علاقوں میں حال ہی میں دریافت ہونے والی اشکال کی صحیح عمر کا بھی اندازہ لگایا جا رہا ہے جو کہ کانسی کے زمانے (5000-2000 قبل مسیح) کے دکھائی دیتے ہیں۔
ڈاکٹر ریمی کراسارڈ فرانس کے نیشنل سینٹر فار سائنٹیفک ریسرچ سے وابستہ ہیں اور خیبر لونگیو ڈیور آرکیالوجیکل پروجیکٹ کے شریک ڈائریکٹر ہیں۔
اس تحقیقی منصوبے کی سرپرستی رائل کمیشن العلا کی جانب سے کی جارہی ہے جب کہ افالعلا (العلا کی ترقی کے لیے فرانسیسی ایجنسی) اس کا اسٹریٹجک پارٹنر ہے۔
یہ اشکال اہم نقطہ نظر کے ساتھ انسانی ارتقا کی تاریخ میں سنگ میل ہے۔ فوٹو ٹوئٹر
سعودی عرب، اردن، آرمینیا اور قازقستان میں اپنی تحقیق کے دوران ڈاکٹر کراسارڈ اور ان کی ٹیم نے اس بات کا تعین کیا کہ یہ خاص قسم کی اشکال عمومی طور پر مویشی پالنے کے بجائے جنگلی جانوروں کے شکار کے لیے استعمال ہوتی تھیں۔
سعودی عرب میں رائل کمیشن برائے العلا کے زیر اہتمام یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کی ایک ٹیم کی طرف سے کی گئی تحقیق میں207 اشکال کا انکشاف اس مخصوص آتش فشاں علاقے میں ہوا ہے۔
جنوبی اردن میں 7000 قبل مسیح میں اس طرح کی مثالیں ملتی ہیں۔ فوٹو ٹوئٹر
العلا کی ترقی کے لیے فرانس کی تحقیقی ایجنسی (افالعلا) میں آثار قدیمہ کے ڈائریکٹر نے کہا کہ العلا اور خیبر کے علاقے میں دریافت ہونے والی مخصوص اشکال نے اہم نقطہ نظر بیان کیا ہے جو انسانی ارتقا کی تاریخ میں سنگ میل اور قدرتی ماحول کے ساتھ بنی نوع انسان کے تعلق کی نشاندہی کرتا ہے۔
رائل کمیشن العلا میں آثار قدیمہ اور ثقافتی ورثے کی تحقیق کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ربیکا فوٹے نے بتایا ہے کہ اس خاص مطالعہ سے شمال مغربی عرب کے باشندوں کے ثقافتی ورثے میں اضافہ ہوا ہے۔
ڈاکٹر ربیکا نے کہاہے کہ حالیہ مطالعات کے بعد ہم سعودی عرب، فرانس، آسٹریلیا، جرمنی اور دیگر ممالک کی بین الاقوامی ٹیموں کے ساتھ تعاون سے بہت سے مزید بصیرت انگیز نتائج کے منتظر ہیں۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں