Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

تحریک انصاف کے رہنما جو لانگ مارچ میں نظر نہیں آئے

لانگ مارچ کے دوران خاص طور پر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے موجودہ اور سابقہ وزرا فرنٹ پر نظر نہیں آئے (فائل فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف گزشتہ آٹھ ماہ سے ایک طرح سے سڑکوں پر ہے۔ اس سیاسی جماعت کا بڑا مطالبہ ایک ہی رہا ہے کہ عام انتخابات جلد از جلد کروائے جائیں۔
اس سلسلے میں رواں برس دوسرے مرحلے میں سب سے بڑا احتجاج لانگ مارچ کی شکل میں نومبر کے مہینے میں شروع کیا گیا۔ یہ لانگ مارچ لاہور سے اسلام آباد پہنچنا تھا لیکن پی ٹی آئی کی حکمت عملی ہر گزرتے دن کے ساتھ بدلتی رہی۔
حکمت عملی میں آخری تبدلی کے بعد اب ملک بھر سے کارکنوں کو 26 نومبر کو راولپنڈی پہنچنے کی کال دی گئی ہے جہاں چئیرمین تحریک انصاف عمران خان خود اس کی قیادت کریں گے۔
پی ٹی آئی کے چیئرمین وزیر آباد میں فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہو گئے تھے جس کے بعد سے اس احتجاج کی زمام شاہ محمود قریشی اور اسد عمر مارچ کے ہاتھ میں ہے۔  
تحریک انصاف نے جب لانگ مارچ شروع کیا تھا تو اتحادی حکومت کا موقف تھا کہ عمران خان نئے آرمی چیف کی تعیناتی پر اثرانداز ہونے کے لیے یہ احتجاج کر رہے ہیں۔ اب جب یہ احتجاج سینچر کو راولپنڈی میں ہو گا تو صورت حال بدل چکی ہے۔ نئے آرمی چیف جنرل عاصم منیر کا تقرر ہو چکا ہے جو 29 نومبر کو چارج سنبھالیں گے۔
 اس سیاسی منظرنامے میں جو بات سب سے زیادہ نوٹ کی جا رہی ہے وہ یہ کہ عمران خان کے اس سفر میں ان کی اپنی جماعت میں سے کون ان کے ساتھ کندھے سے کندھا ملائے نظر آیا اور کون سے ایسے رہنما ہیں جو نمایاں طور پر غائب ہیں؟  
تواتر سے ساتھ نظر آنے والوں میں شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری، اسد عمر، حماد اظہر، فرخ حبیب ، یاسمین راشد اور میاں اسلم اقبال ہیں۔
خیبر پختونخواہ قیادت کا اندازہ سینچر کے روز ہی لگایا جا سکے گا ۔ اس سے پہلے ان کو صرف وہیں تیاری کرنے کی ہدایت کی گئی تھی کیونکہ لانگ مارچ کا روٹ لاہور سے اسلام آباد تھا۔  
جن چہروں کی کمی اس احتجاج یا لانگ مارچ کے دوران محسوس کی گئی ان میں خسرو بختیار، سابق وزیر داخلہ اعجاز شاہ، شفقت محمود اور مراد راس ہیں۔
اس کے علاوہ وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویز الٰہی اور مونس الٰہی بھی اہم ترین اتحادی ہونے کے باوجود کہیں نظر نہیں آئے۔  
صرف یہی نہیں پنجاب کابینہ سے وزرا کی اکثریت اس لانگ مارچ سے غائب نظر آئی۔ نواب زادہ منصور احمد ، سردار حسنین بہادر دریشک، منیب سلطان چیمہ، یاسر ہمایوں، ہاشم ڈوگر، حسین جہانیاں گردیزی، محسن لغاری، سید عباس علی شاہ، عنصر مجید نیازی، غضنفر چھینہ اور علی افضل ساہی سمیت کابینہ کے تقریباً تمام وزرا میڈیا کی نظروں سے اوجھل رہے۔ کچھ تو سرے سے غائب رہے اور کچھ ’حاضری لگوا کر نکل لیے۔‘  
خاص طور پر جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے موجودہ اور سابقہ وزرا فرنٹ پر نظر نہیں آئے۔

’کسی پر لازم نہیں تھا کہ لازمی سٹیج پر نظر آئے‘

اس سوال کا جواب جاننے کے لیے کہ کیوں تحریک انصاف کے وہ رہنما جن کو وزارتوں کا اہل سمجھا جاتا ہے، عمران خان کی کال پر ساتھ کھڑے نظر کیوں نہیں آ رہے جب اردو نیوز نے پنجاب حکومت کی ترجمان مسرت چیمہ سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’یہ بات درست نہیں۔ تحریک انصاف کا لانگ مارچ اس بار ایک غیر روائتی مارچ تھا۔‘
’ہم نے لوگوں کو سڑکوں پر تھکایا نہیں ہے۔ جی ٹی روڈ پر ہر شہر اور قصبے میں صرف وہیں کی مقامی قیادت چاہے وہ ایم پی اے ہو یا ایم این اے آپ نے صرف اسی کو چئیرمین عمران خان کے ساتھ کنٹینر پر دیکھا ہو گا۔‘  
انہوں نے بتایا کہ لانگ مارچ کی حکمت عملی ہی ایسی تھی کہ کسی پر لازم نہیں تھا کہ لازمی سٹیج پر نظر آئے۔
مسرت چیمہ کے مطابق ’لانگ مارچ کا آخری اور حتمی مرحلہ اب کل راولپنڈی میں ہے تو اس میں دیکھیے گا کہ ملک کے طول و عرض سے تحریک انصاف کی نہ صرف قیادت بلکہ کارکنان بھی اپنے چئیرمین کی کال پر کیسے پہنچتے ہیں۔‘
’یہ تأثر قائم کرنا کہ جماعت کے اندر سے قیادت عمران خان کے بیانیے سے مطابقت نہیں رکھتی سراسر غلط ہے۔‘   

شیئر: