پاکستان کے صوبہ پنجاب میں تحریک انصاف کی حکومت ہے لیکن ملک میں جاری سیاسی گہما گہمی میں اس بات کا تعین کرنا قدرے مشکل ہے کہ وزیراعلٰی پنجاب کس طرف سے ’کھیل‘ رہے ہیں۔
وزیراعلٰی آفس سے جاری حالیہ بیانات سے صاف دکھائی دیتا ہے کہ چودھری پرویز الٰہی کھُل کر کسی ایک فریق کی حمایت سے گریز برت رہے ہیں۔
مزید پڑھیں
-
کیا وزیراعلٰی پنجاب چوہدری پرویز الٰہی کی کرسی خطرے میں ہے؟Node ID: 708146
-
کیا پنجاب میں پولیس ’سیاسی مداخلت‘ کی نذر ہو رہی ہے؟Node ID: 720406
وزیراعلٰی پنجاب نے ملک میں جاری سیاسی کشیدگی کے دنوں میں اچانک سیاسی جلسوں کا آغاز کر دیا ہے۔ بدھ کے روز جہانیاں کے علاقے میں انہوں نے ایک جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’عمران خان کا ساتھ دیں، قائداعظم کے بعد یہ پہلا سچا لیڈر ہے۔ پی ٹی آئی کے ساتھ مل کر عوام کی فلاح وبہبود کے لیے کام کریں گے۔‘
تاہم انہوں نے سیاسی چپقلش سے متعلق کوئی بات نہیں کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں مسلم لیگ ن کو نشانے پر لیتے ہوئے کہا کہ ’ن لیگ کو ایسی مار دیں گے کہ یہ دوبارہ اُٹھ نہ سکیں۔ شہبازشریف، نواز شریف اور ن لیگ نے کبھی عوام کے لیے کچھ نہیں کیا۔‘
چودھری پرویز الٰہی کے یوں اچانک متحرک ہونے کو سیاسی تجزیہ کار ایک مختلف رنگ میں دیکھ رہے ہیں۔
سینیئر صحافی سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ’پرویز الٰہی اس وقت چکی کے پاٹ میں پھنس چکے ہیں۔‘ اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’پرویز الٰہی کی سیاست ہمیشہ مفاہمتی رہی ہے لیکن اس بار وہ اپنے بیٹے مونس الٰہی کی زیادہ سن رہے ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ ’اس وقت ق لیگ کی حقیقی سیاست مونس الٰہی چلا رہے ہیں جس پر پرویز الٰہی کو بظاہر کوئی اعتراض بھی نہیں۔ پرویز الٰہی نہ چاہتے ہوئے بھی اپنے بیٹے کی بات مان رہے ہیں لیکن وہ یہ بھی سمجھتے ہیں کہ اس سے کوئی بڑا سیاسی فائدہ حاصل ہونے والا نہیں۔‘
سینیئر صحافی اور اینکر پرسن عبدالمالک کے مطابق وزیراعلٰی پنجاب اس وقت صرف اپنی مستقبل کی سیاست پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔ ’وہ کبھی بھی عمران خان کے لانگ مارچ میں آپ کو نظر نہیں آئے۔ اس کی بنیادی وجہ ہے کہ وہ سمجھتے ہیں کہ ایک حد سے زیادہ زور آزمائی نہیں کی جا سکتی۔‘
خیال رہے کہ اس وقت ق لیگ کے پاس پنجاب میں 10 نشستیں ہیں جس کی بنیاد پر پرویز الٰہی تحریک انصاف کی حمایت سے پنجاب کے وزیراعلٰی کی کرسی پر براجمان ہیں۔
پرویز الٰہی عمران خان کی حمایت تو کر رہے ہیں تاہم وہ براہِ راست عمران خان کی پالیسیوں سے اتفاق کرتے دکھائی نہیں دیتے۔ وہ ابھی بھی اس بات پر قائل ہیں کہ ’عمران خان کی اسٹیبلشمنٹ سے دوریاں ختم ہو جائیں گی۔‘
