چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان نے لاہور میں پی ٹی آئی پنجاب کی پارلیمانی پارٹی سے خطاب کے دوران پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیوں کو توڑنے کے فیصلے کو موخر کرنے اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل عمران خان نے 26 نومبر کو راولپنڈی میں جلسے سے خطاب کرتے ہوئے اسمبلیوں سے نکلنے کا اعلان کیا تھا۔
مزید پڑھیں
-
حکومت ہمارے ساتھ بیٹھے ورنہ ہم اسمبلیاں تحلیل کریں گے: عمران خانNode ID: 722816
-
عمران خان کی حکومت کو مذاکرات کی پہلی پیش کش کتنی اہم ہے؟Node ID: 722851
انہوں نے اس حوالے سے حتمی فیصلے کے لیے دو دسمبر کا دن مختص کیا تھا جس میں پنجاب کی پارلیمانی پارٹی کے سامنے یہ معاملہ رکھا جانا تھا۔
تاہم عمران خان نے پارٹی سے اپنے خطاب میں اسمبلیاں توڑنے کے فیصلے کو موخر کرتے ہوئے وفاقی حکومت سے مطالبہ کیا کہ ’وہ اس معاملے پر مذاکرات کرے۔‘
ایسے میں یہ سوال شدت سے سر اٹھا رہا ہے کہ آخر عمران خان نے اعلان کے بعد اس میں تاخیر کا عندیہ کیوں دیا؟ وہ کیا مضمرات ہیں جن کی وجہ سے انہوں نے جارحانہ کی بجائے احتیاط سے چلنے کا فیصلہ کیا؟
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں شریک پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے اردو نیوز کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’پنجاب سے استعفے دینا خودکشی کے مترادف ہو سکتا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’اراکین اسمبلی کی اکثریت یہ سمجھتی ہیں کہ اس وقت میں اسمبلی چھوڑنا مخالفین کے لیے میدان کھلا چھوڑنے کے مترادف ہے۔ اس وقت تمام حلقوں میں بڑے پیمانے پر ترقیاتی کام شروع ہو چکے ہیں۔ فنڈز کا اجرا بھی ہو چکا ہے۔ ایسے میں اگر حکومت ہمارے ہاتھ سے چلی جاتی ہے تو کسی کو نہیں پتہ آگے کیا ہو گا۔ فرض کریں اگر صوبے میں اقتدار ن لیگ یا پیپلزپارٹی کے پاس چلا جاتا ہے تو ہمارے ہاتھ کیا آئے گا؟‘
