Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کراچی کی جنگ کون جیتے گا…؟

کراچی ایسی گلی سڑی نعش ہوگئی جسکی بوٹیاں ہر روز بلاناغہ گدھ نوچ نوچ کرکھانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں، گندگی اور بدبو سے دماغ کی رگیں پھٹتی ہیں
- - - - - - - -
صلاح الدین حیدر
- - - - - - -
جنگیں صرف سرکاری محاذوں پر ہی نہیں لڑی جاتیں، ان کی کئی اشکال ہیں۔معاشی و سیاسی جنگ، جائیداد اور زمین پر قبضے کی جنگ لیکن جنگ برتری کے لئے لڑی جاتی ہے، معاشرے کو سُدھارنے کیلئے جنگیں نہیں جہاد کیا جاتا ہے۔ تو آئیے چلتے ہیں آج ایک اور نئی جنگ کے بارے میں جانتے ہیں۔ یہ جنگ کراچی میں سیاسی سبقت کیلئے لڑی جارہی ہے، آغاز ہوچکا ہے۔ بانی متحدہ نے پچھلے سال22 اگست کو کراچی میں پاکستان مخالف نعرہ کیا لگایا، سیاسی پارٹیوں (جو 1987 سے کراچی سے ہاتھ دھو بیٹھی تھیں) کی آنکھیں ایک دم چکاچوند ہوگئیں، شہرِ قائد میں فی الحال 20 قومی اسمبلی اور 40 صوبائی اسمبلی کی نشستیں ہیں۔ بڑی تعداد ہے۔
2013 کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ نے 20 قومی اسمبلی کی نشستوں میں سے 17 جیت لیں، باقی2پیپلز پارٹی کے اور ایک پاکستان تحریک انصاف کے حصّے میں آئی، لیکن عام خیال یہی ہے کہ مردم شماری (جو 15 مارچ سے شروع ہوئی) کے نتیجے میں کراچی کی آبادی اگر صحیح طور پر دِکھائی گئی تو انکی تعداد میں اضافہ ہوجائیگا۔ ظاہر ہے کہ جماعت اسلامی، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی نے خم ٹھونک کر کراچی پر ہلّہ بول دیا ہے۔ برسوں بعد جماعت اسلامی کو بھی شہرِ قائد کی بدحالی پر ترس آ ہی گیا۔ اُن کے کراچی کے صدر نعیم الرحمن کی سربراہی میں پریس کلب کے سامنے ہفتے بھر دھرنا دیا گیا۔کے الیکٹرک کیخلاف بھرپور احتجاج ہوا۔ کہا گیا کہ کے الیکٹرک بجلی کے نرخ بہت بڑھا چڑھا کر لیتی ہے، بڑی حد تک یہ بات درست ہے۔ پورے ملک میں بجلی کے نرخوں میں ہر مہینے کمی کردی جاتی ہے جبکہ کراچی میں ہر دوسرے مہینے یہ نرخ بڑھا دیے جاتے ہیں۔ جانے کون سا فلسفہ ہے جس پر اس شدومد سے عمل درآمد ہورہا ہے۔
کہنے والے تو یہاں تک کہتے ہیں کہ کے الیکٹرک پیپلز پارٹی، ایم کیو ایم، تحریک انصاف تک کو ماہانہ بھتہ دیتی ہے۔ چونکہ ہمیں اس بات کا ذرّہ برابر علم نہیں، اس لئے تبصرہ مناسب نہیں لیکن یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ نیشنل پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) ہر مہینے جہاں پنجاب اور دوسرے صوبوں میں بجلی کے نرخوں میں مستقلاًکمی کرتی رہتی ہے، کراچی میں اُلٹی ہی گنگا بہانے میں مصروف ہے۔ یہ اہلیان کراچی کے ساتھ دشمنی نہیں تو پھر اور کیا ہے؟ آج ہر شخص اس سوال کا جواب مانگ رہا ہے، تذبذب کا شکار ہے کہ آخر کراچی والوں کے ساتھ سوتیلا سلوک کیوں؟ کیا کراچی، مملکت پاکستان کا حصّہ نہیں، کیا یہ کوئی دوسرے ملک کا حصّہ ہے، کیا یہاں پاکستانی نہیں کسی اور ملک کے باشندے بستے ہیں…؟ جماعت اسلامی کے دھرنے کے دوران ہی تحریکِ انصاف کے چیئرمین عمران خان کراچی تشریف لائے۔2 دن قیام کیا، کراچی کے میئر کی حمایت میں بیان بھی دے ڈالا۔
میئر کو اختیارات کی بات بھی کی، جلسہ بھی کیا، دوبارہ جلدی آنے کا وعدہ بھی کیا گیا۔ پاک سرزمین پارٹی کے سربراہ مصطفیٰ کمال نے بھی جلسے جلوسوں کا اہتمام کیا۔ اُنہوں نے اپنے 16 میں 8 مطالبات کراچی کے میئر کو اختیارات کے حق میں رکھے، اُس کا باقاعدہ اعلان بھی کیا اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر کراچی پر توجہ نہیں دی گئی تو پھر وہ باقاعدہ عروس البلاد کے حقوق کی حمایت میں اعلانِ جنگ کریں گے، خوش آئند بات ہے۔ ڈاکٹر فاروق ستار (جو اَب بانی متحدہ سے ناتا توڑ چکے اور ایم کیو ایم پاکستان کے سربراہ ہیں) نے بھی کراچی کے حقوق کی بات کی لیکن تعجب تو یہ ہے کہ ان میں سے کسی نے بھی، خواہ وہ عمران خان ہوں، نعیم الرحمن یا جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق، یا فاروق ستار و مصطفیٰ کمال، نے کراچی میں بجلی کے بڑھتے نرخوں کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا، یہ حیرانی کی بات نہیں ہے کیا…؟ پیپلز پارٹی کی تو بات کرنا ہی بیکار ہے، وہ تو صرف کراچی پر اپنا قبضہ جمانے کی فکر میں مزید موٹی ہوتی جارہی ہے۔ مثل مشہور ہے کہ قاضی جی شہر کے اندیشے میں دُبلے ہوئے جاتے ہیں لیکن پیپلز پارٹی کے جسم پر تو روز بروز مزید گوشت چڑھتا نظر آتا ہے۔ بلاول بھٹو ہوں، یا وزیراعلیٰ مُراد علی شاہ، سب ہی کراچی کی باتیں تو کرتے ہیں، اس پر اپنا حق بھی جتاتے ہیں، لیکن عملاً نتیجہ صفر۔ مُراد علی شاہ بھاگ دوڑ تو بہت کرتے ہیں، منصوبوں کی جلد سے جلد تکمیل کی حمایت میں روز ہی ایک بیان داغ دیتے ہیں لیکن صرف باتوں کی حد تک۔ جس ملک میں ایک بھائی اور اُن کی بہن صرف دولت کے ارتکاز میں دلچسپی رکھتے ہوں، وہاں کسی اور چیز کی خواہش ہی بے سود ہے۔ صوبۂ سندھ کا خزانہ نہ ہوا سونے کی کان ہوگئی۔ جس کی مرضی آئے لوٹ کھسوٹ کرے اور چلتا بنے۔ یہی کچھ کراچی کے ساتھ 2008 سے ہورہا ہے، تو پھر علاج کیا ہے۔ کیا آئندہ انتخابات میں کراچی بندربانٹ کا شکار ہوجائے گا۔ لگتا تو ایسا ہی ہے اور اگر واقعی ایسا ہوا تو یہ اس شہر (جو نہ صرف سندھ بلکہ پورے ملک کو پال رہا ہے) کی بدقسمتی ہوگی۔ اس کے علاوہ اور کیا کہا جاسکتا ہے۔
اس شہر کو بنانے سنوارنے کے بجائے، اسے کوڑے، کچرے کے ڈھیر میں تیزی سے تبدیل کیا جارہا ہے۔شہر نہ ہوا، ایسی گلی سڑی لاش ہوگئی جس کی بوٹیاں ہر روز، بلاناغہ گِدھ نوچ نوچ کر کھانے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ افسوس بلکہ رونے کا مقام ہے لیکن حقیقتاً ایسا ہی ہورہا ہے۔ سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں، گندگی اور بدبو سے دماغ کی رگیں پھٹ پڑیں، لیکن پُرسان حال کوئی نہیں۔ ’’روئیے زار زار کیا کیجیے ہائے ہائے کیوں‘‘۔ چچا غالب کو شاید آج سے 2صدی پہلے ہی خبر ہوگئی تھی۔ کسی بھی سیاسی پارٹی، بشمول ایم کیو ایم نے کراچی کے مسائل کا حل پیش نہیں کیا، تقاریر تو ہوتی ہیں، کان پک گئے ان کو سن سن کر، آنکھیں تھک گئیں مسائل کا حل ڈھونڈتے ڈھونڈتے، لیکن نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ لوگ ٹیکس خوشی خوشی دیتے ہیں، قوی اُمید رکھتے ہیں کہ آج نہیں تو کل شہر کی قسمت بدلے گی، لیکن کبھی اس کا کوئی ذکر تک نہیں کرتا۔ ایم کیو ایم (لندن) کا باب تو قریباً بند ہی ہوچکا، مگر پاک سرزمین پارٹی اور ایم کیو ایم (پاکستان) کو ایک ہونا پڑے گا، دونوں کو ہاتھ ملانا پڑے گا اور اگر ادغام نہ بھی ہوا تو دونوں مل کر نشستوں کے بارے میں کسی معاہدے پر پہنچ سکتی ہیں۔ یہی ایک صورت ہے جب ایم کیو ایم اُردو بولنے والوں کی صحیح طور پر نمائندگی کرسکے گی، ورنہ اگر یہ دونوں دھڑے آپس میں ٹکرا گئے تو ایک دوسرے کے ووٹ کاٹیں گے اور پیپلز پارٹی، جماعت اسلامی، تحریک انصاف اس شہر کے حصّے بخرے کردیں گی۔
ان میں سے کسی جماعت کو مکمل فوقیت حاصل نہیں ہوسکے گی تو پھر اُردو بولنے والوں کے سب سے بڑے مسکن کی تکّہ بوٹیاں ہوجائیں گی اور اس شہر کے مکینوں کا پُرسانِ حال کون ہوگا۔کون اس باغ کی رکھوالی کرے گا؟ یہ اﷲ ہی بہتر جانتا ہے۔ پیپلز پارٹی سے کوئی توقع رکھنا فضول ہے۔تحریک انصاف کے پاس افراد کی کمی ہے، (ن) لیگ نے ایک ایک نشست تو پچھلے انتخابات میں کراچی سے جیتی تھیں، لیکن فیصلہ کن جنگ جیتنا تو درکنار، لڑ بھی نہیں سکتی۔ یہی حال تحریک انصاف کا ہے۔ پچھلے انتخابات میں پی ٹی آئی نے ایک قومی اور 3 صوبائی اسمبلی کی نشستیں جیتیں، لیکن اُن میں سے تو کوئی اُنہیں چھوڑ چھاڑ کر دوسری پارٹیوں میں چلا گیا۔ ہاں جماعت اسلامی کے پاس افرادی قوت موجود ہے۔ وہ جنگ کا نقشہ تبدیل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے لیکن عوام کو دینی جماعتوں پر اعتماد نہیں۔
جماعت اسلامی نے 1970 میں 2نشستیں جیتیں، پروفیسر غفور احمد اور محمود اعظم فاروقی، 2جمعیت علمائے پاکستان نے، جس کے سربراہ مرحوم شاہ احمد نورانی اور علامہ الاظہری منتخب ہوئے لیکن اب تو مولانا نورانی کی جماعت کی نماز جنازہ تک پڑھائی جاچکی ہے۔ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات ( جو جنرل ضیاء الحق نے بادل نخواستہ کروائے تھے) میں جماعت اسلامی پورے ملک سے صرف 8 قومی اسمبلی کی نشستیں جیت سکی۔ یہی حال مولانا فضل الرحمن کی جمعیت العلمائے اسلام کا بھی تھا۔ لوگ مذہب کے نام پر ووٹ نہیں دیتے، یہ حقیقت بار بار آشکار ہوچکی ہے،تو آپ بھی انتظار کیجیے، ہم بھی منتظر ہیں، لیکن میری کہی ہوئی بات کہ دونوں ایم کیو ایم دھڑے اگر نہ ملے تو اُردو بولنے والوں کا اﷲ ہی حافظ ہے۔

شیئر: