سِکھ اہلکاروں کو داڑھی، پگڑی کے ساتھ ٹریننگ کی اجازت دی جائے: امریکی عدالت
عدالتی فیصلے کے مطابق ’میرینز نے کوئی دلیل پیش نہیں کی کہ آیا داڑھی اور پگڑیاں حفاظتی لوازمات یا جسمانی تربیت میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔‘ (فائل فوٹو: نیوز 18)
ایک امریکی عدالت نے میرین کور(یو ایس ایم سی) کو حکم دیا ہے کہ وہ بھرتی ہونے والے سکھ مذہب سے تعلق رکھنے والے اہلکاروں کو داڑھی رکھنے اور پگڑیاں پہننے کی اجازت دیں۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق عدالت نے جمعے کو امریکی بحریہ کی ایلیٹ یونٹ کے اس دعوے کو مسترد کرتے ہوئے کہ مذہبی استثنیٰ کی اجازت دینے سے ہم آہنگی کم ہو گی، یہ حکم جاری کیا۔
واضح رہے کہ امریکی فوج، بحریہ، فضائیہ اور کوسٹ گارڈز اور کئی غیرملکی افواج میں پہلے ہی سکھ مت کے مذہبی تقاضوں کا خیال رکھا جاتا ہے۔
سکھ مت کا عقیدہ پانچ صدیاں قبل جنوبی ایشیا میں ظہور پذیر ہوا تھا جو مردوں کو بال کاٹنے یا داڑھی تراشنے سے منع کرتا ہے اور اس میں مردوں کے لیے پگڑی پہننا لازمی قرار دیا گیا ہے۔
لیکن امریکی میرین کور نے گزشتہ برس بھرتی ہونے کے لیے ٹیسٹ دینے والے تین سکھوں کو 13 ہفتوں کی بنیادی تربیت اور ممکنہ جنگی حالات کے دوران داڑھی بڑھانے سے متعلق ضوابط میں میں چھوٹ دینے سے انکار کر دیا تھا۔
میرین کور کی جانب سے کہا گیا تھا کہ یہ تینوں افراد اپنی داڑھی اور پگڑیاں ٹریننگ کے سوا برقرار رکھ سکتے تھے۔
اس حوالے سے میرین کور کی قیادت کی دلیل یہ تھی کہ سپاہیوں میں مشترکہ قربانی کا جذبہ بیدار کرنے کی جانب ’نفسیاتی تبدیلی‘ کے لیے بھرتی ہونے والوں سے ’ان کی انفرادیت الگ کرنے‘ کی ضرورت ہے۔
واشنگٹن میں امریکی کورٹ آف اپیلز کے تین ججوں کے بنچ نے اس میرین کور کی اس دلیل سے اختلاف کرتے ہوئے کہا کہ میرینز نے کوئی دلیل پیش نہیں کی کہ آیا داڑھی اور پگڑیاں حفاظتی لوازمات یا جسمانی تربیت میں رکاوٹ ڈالتی ہیں۔
عدالت نے کہا کہ میرینز نے بعض حالات میں مردوں کو داڑھی مونڈنے سے مستثنیٰ قرار دیا ہے اور خواتین کو اپنے بالوں کے انداز کو برقرار رکھنے اور بڑے پیمانے پر ٹیٹو(’جو کہ انفرادی شناخت کا عمدہ اظہار ہے‘) بنانے کی اجازت دی ہوئی ہے۔
جج پیڑیسیا ملیٹ اپنے فیصلے میں لکھا ’تربیت کے دوران مختلف پس منظر کے افراد میں ہم آہنگی پیدا کرنے کی ضرورت کے باوجود بھی انفرادیت کی کچھ بیرونی علامات کا لحاظ کیا جا سکتا ہے۔‘
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ نشاندہی بھی کی کہ داڑھی کے ضوابط 1976 سے ہیں۔ بالوں والے میرینز سے ریوولوشنری وار کے زمانے سے لے کر جدید دور تک کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
عدالت نے ابتدائی حکم امتناعی جاری کیا کہ دو بھرتی ہونے والوں ملاپ سنگھ چاہل اور جسکرت سنگھ کو اپنے عقیدے کے تقاضوں کے ساتھ تربیت شروع کرنے کی اجازت دی جائے جبکہ ایک ضلعی عدالت اس کیس کو مکمل جانچ پڑتال کر رہی ہے۔
سکھ کولیشن ایڈووکیسی گروپ کی ایک سینئر سٹاف اٹارنی جیزیل کلاپر نے اس فیصلے کو سراہتے ہوئے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ’دیانت دار سکھ جنہیں ہمارے ملک کی خدمت کے لیے بلایا جاتا ہے، وہ اب امریکی میرین کور میں بھی ایسا کر سکتے ہیں۔‘