Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا وزارتوں میں آڈٹ حکام کے رشوت لینے کا نوٹس

کمیٹی نے ہدایت کی کہ آڈٹ کے لیے 20 یا 21 گریڈ کے افسر کو بھیجا جائے۔ (فوٹو: پکپیڈیا)
پارلیمان کی پبلک اکاؤنٹس کمیٹی (پی اے سی) کے اجلاس میں کہا گیا ہے کہ آڈٹ حکام اور اہلکار وزارتوں سے رشوت مانگتے ہیں۔
بدھ کو چیئرمین نور عالم خان کی زیرِصدارت پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کا اجلاس ہوا۔
پی اے سی نے ملک کے پانچ بڑے آبی منصوبوں کے فرانزک آڈٹ کرانے کا فیصلہ کیا ہے جبکہ ڈیم فنڈز کی تفصیلات فراہم نہ کرنے کے معاملے پر چیف جسٹس آف پاکستان کو خط لکھا جائے گا۔
پی اے سی کے چیئرمین نے کہا کہ کچھ وزارتوں اور محکموں نے ان سے رابطہ کر کے شکایت کی ہے کہ آڈٹ اہلکار وصولیوں یا دستاویزات کی تصدیق کے مرحلے میں رشوت مانگتے ہیں۔
پی اے سی نے نوٹس لیتے ہوئے فیصلہ کیا ہے کہ تمام وزارتوں کو خط لکھے جائیں گے جن میں وزارتوں سے کہا جائے گا کہ آڈٹ حکام، کسی بھی وزارت یا محکمے کے افسر سے فیور مانگیں تو فوری پی اے سی کو اطلاع دی جائے۔
اس کے ساتھ ہی کمیٹی نے آڈیٹر جنرل آف پاکستان کو ہدایت کی کہ آڈٹ کے لیے 20 یا 21 گریڈ کے افسر کو بھیجا جائے۔

پانچ آبی منصوبوں کا فرانزک آڈٹ

پی اے سی اجلاس کے دوران وزارت آبی وسائل کی آڈٹ رپورٹ 2019-20 کا جائزہ لیا گیا۔ جس کے جائزے کے دوران پی اے سی نے ڈیمز کی تعمیر سمیت پانچ منصوبوں کے فرانزک آڈٹ کی ہدایت کر دی۔

پی اے سی ڈیم فنڈ کے حوالے سے سابق چیف جسٹس کو خط بھیجے گا۔ (فوٹو: اے پی پی)

جن منصوبوں کے فرانزک آڈٹ کی ہدایت کی گئی ان میں بھاشا ڈیم، داسو، مہمند، نیلم جہلم اور کے فور کراچی کا منصوبہ شامل ہے۔
آڈٹ رپورٹ کے مطابق داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ میں اربوں روپے کی مالی بے ضابطگیوں کا انکشاف ہوا۔
آڈٹ حکام نے بتایا کہ 2016-17  میں 22 ارب 88 کروڑ روپے لاگت کے تین ٹھیکے دیے گئے۔ کام شروع ہونے سے پہلے ٹھیکیداروں کو چار ارب 58 کروڑ کی ایڈوانس رقم جاری کی گئی۔ ایڈوانس ادائیگی کے بعد پانچ سال گزرنے کے باوجود کام شروع نہ ہوسکا۔
ایک اور آڈٹ اعتراض میں انکشاف ہوا کہ وزارتِ آبی وسائل کے مختلف منصوبوں پر 114 افراد کو کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا ہے جنہیں لاکھوں روپے تنخواہ دی جا رہی ہے۔
پی اے سی نے ان افراد  کو خزانے پر بوجھ قرار دیتے ہوئے ہٹانے کی ہدایت کر دی۔

شیئر: