Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی کا نور عالم خان کو پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے نکالنے کا فیصلہ

تجویز میں نور عالم خان کو پبلک اکاؤنٹس سے نکال کر ان کی جگہ این اے دو حیدر علی کو شامل کرنے کا کہا گیا ہے (فوٹو: ٹوئٹر)
 پاکستان تحریک انصاف کے رکن قومی اسمبلی نور عالم خان کو پارٹی کی جانب سے شو کاز نوٹس جاری ہونے کے بعد پبلک اکاؤنٹس کمیٹی سے نکالنے کا بھی فیصلہ کر لیا ہے اور اس حوالے سے تجویز سپیکر قومی اسمبلی کو بھجوا دی ہے۔
منگل کو تحریک انصاف کے قومی اسمبلی میں چیف وہیپ عامر ڈور کی جانب سے بھجوائی گئی تجویز میں این اے 27 پشاور سے نور عالم خان کو پبلک اکاؤنٹس سے نکال کر ان کی جگہ این اے دو حیدر علی کو شامل کرنے کا کہا گیا ہے۔  
خیال رہے کہ نور عالم خان پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کے متحرک ترین رکن ہیں اور وہ پیپلز پارٹی دور میں بھی پی اے سی کے رکن رہ چکے ہیں۔
نور عالم خان پی اے سی اجلاسوں میں وزارتوں کے آڈٹ اعتراضات پر کھل کر اظہار کرتے رہے ہیں جس کی وجہ سے کچھ حلقوں کی جانب سے وزیراعظم کو ان کی شکایت بھی لگائی گئی تھی۔  
تحریک انصاف کی جانب سے باضابطہ طور پر نور عالم خان کو اس فیصلے سے آگاہ کر دیا گیا ہے۔ یہ اطلاع انھیں ایسے وقت میں دی گئی جب وہ ہسپتال میں کورونا وائرس مین مبتلا ہونے کی وجہ سے زیر علاج ہیں۔ 
نور عالم خان نے پی اے سی کی تشکیل میں تبادلے کی تجویز سے متعلق خود ٹویٹ کرکے بتایا کہ انھیں پی اے سی سے نکالا جا رہا ہے۔
انھوں نے اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’پبلک اکاؤنٹس وہ فورم ہے جہاں میں سرکاری افسران اور مافیا کے گٹھ جوڑ کا مقابلہ کر رہا تھا۔ میں نے پہلے بھی کہا تھا کہ ان کے وفادار قومی اسمبلی میں پہلی تین قطاروں میں بیٹھتے ہیں اور ان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے چاہییں۔ پاکستان سب سے پہلے آتا ہے۔‘
اپنی جماعت کے اس فیصلے کے بارے میں اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے نور عالم خان نے کہا کہ ’پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی کارروائی کا ریکارڈ نکالیں اور میرا کنڈکٹ دیکھ لیں، میرا کام دیکھ لیں۔ میں نے ایمانداری کے ساتھ پاکستان کے عوام کے ٹیکس دہندگان کے پیسے کے غلط استعمال پر ان کا احتساب کیا ہے۔‘  
انھوں نے کہا کہ ’آزادی اظہار، جمہوریت اور کرپشن اور احتساب کی بات کرنے والے اتنی جلدی پسپا ہو جائیں گے میں نے سوچا نہیں تھا۔‘
نور عالم خان نے کہا کہ ’یہ تو بہت چھوٹے اور کمزور لوگ نکلے لیکن میں اپنے حلقے کے عوام کا نمائندہ ہوں جنھوں نے مجھے اسی وجہ سے چنا تھا اس لیے میں اپنا کام جاری رکھوں گا اور کرپٹ مافیا اور ان کے سہولت کاروں کے خلاف آواز اٹھاتا رہوں گا۔‘
خیال رہے کہ نور عالم خان نے موجودہ حکومت میں سب سے پہلے پارٹی اجلاسوں میں وزیراعظم سے سخت سوالات شروع کیے جنھیں عوامی سطح پر تو پذیرائی ملی لیکن پارٹی کے رہنما ان کے اس رویے کو پسند نہیں کرتے تھے۔   
تحریک انصاف کے ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ ’قومی اسمبلی میں وزیراعظم سمیت تمام وزراء کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کرنے سے ایک دن قبل وزیراعظم کی زیر صدارت پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں پرویز خٹک کے علاوہ نور عالم خان اور وزیر اعظم کے درمیان بھی تند و تیز جملوں کا تبادلہ ہوا تھا۔
نور عالم خان نے سوال کیا تھا کہ ’وزیر اعظم صاحب بتائیں کہ کیا امریکہ اور انڈیا جیسے ممالک بھی اپنے ادارے آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھواتے ہیں؟‘   
جس پر وزیر اعظم نے برا منایا تھا اور کہا تھا کہ ’یہ اپوزیشن کا بیانیہ ہے اس پارٹی اجلاسوں میں زیر بحث نہیں لانا چاہیے۔ ہم کوئی ادارہ گروی نہیں رکھ رہے۔‘
تحریک انصاف کی جانب سے نور عالم خان کو پارٹی پالیسی کے خلاف بیان دینے پر بھیجے گئے اظہار وجوہ کے نوٹس میں ان کے قومی اسمبلی میں جمعہ کو توجہ دلاؤ نوٹس پر کابینہ ارکان کے نام ای سی ایل میں ڈالنے کا مطالبہ کیا تھا۔   
نور عالم خان نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ ’جو کچھ حالات بنے ہیں ایوان کی اگلی تین قطاریں ذمہ دار ہیں۔ کیا میں پاکستانی نہیں ہوں؟ کیا پشاور اس ملک کا ضلع نہیں ہے؟ کیا میانوالی سوات اور صوابی ہی اس ملک کے اضلاع ہیں؟‘   
انھوں نے کہا کہ ’پشاور میں بائیس بائیس گھنٹے بجلی جاتی ہے۔ کیا میں صرف ووٹ دینے کے لیے ہی ہوں؟ اس ایوان کی نشستوں کی اگلی تین قطاروں کے نام ای سی ایل میں ڈال دیں سب ٹھیک ہوجائے گا۔‘    
واضح رہے کہ ایوان کی اگلی تین قطاروں میں سب سے پہلی نشست پر وزیر اعظم اور ان کے بائیں جاب اہم وفاقی وزراء اور دوسری قطار میں بھی وفاقی وزراء جبکہ تیسری قطار میں وزرائے مملکت بیٹھتے ہیں۔ 

شیئر: