یوکرینی دارالحکومت پر فضائی حملے، رات بھر سائرن گونجتے رہے
روس نے رواں برس 24 فروری کو یوکرین پر حملہ کیا تھا (فوٹو: اے ایف پی)
روس نے یوکرین کے دارالحکومت کیئف پر مزید حملے کیے ہیں۔ جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ہونے والے ان حملوں میں کئی عمارتیں تباہ ہونے کی اطلاع ہے جبکہ حکام نے رہائشیوں کو محفوظ مقامات کی طرف جانے کی ہدایات بھی جاری کیں۔
برطانوی خبررساں ادارے روئٹرز کے مطابق تازہ صورت حال روس کے اب تک کے سب سے بڑے فضائی حملے کے چند گھنٹے بعد سامنے آئی ہے۔
رپورٹ کے مطابق رات دو بجے کے قریب کیئف کی شہری حکومت نے ٹیلی گرام ایپ پر الرٹ جاری کیا اور اس کے ساتھ ہی خطرے کے سائرن بھی بجائے گئے۔
کیئف کے گورنر اولیکسکی کیوبیلا نے ٹیلی گرام پر کہا کہ ’ڈرونز کے ذریعے حملے جاری ہیں۔‘
اس سے تھوڑی دیر قبل جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب اپنے ویڈیو خطاب میں یوکرینی صدر ولادیمیر زیلنسکی نے کہا کہ ’ایئر کمانڈز نے جنوبی، مشرقی اور مغربی یوکرین میں 54 روسی میزائلوں اور 11 ڈرونز کو مار گرایا ہے۔
زیلنسکی نے تسلیم کیا کہ ملک کے زیادہ تر حصوں میں بجلی دستیاب نہیں ہے۔
’ہم کوشش کر رہے ہیں لیکن ان علاقوں میں بجلی کی بحالی کافی مشکل ہے۔‘
انہوں نے اپنے فوجیوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ حملوں کا بھرپور مقابلہ کیا جا رہا ہے۔
روئٹرز نے جمعرات کی ایک ایسی ویڈیو بھی حاصل کی ہے جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کارکن کیئف میں گولہ باری سے تباہ ہونے والے گھروں کے ملبے میں تلاش کا کام کرتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔
اس سے قبل حکام کا کہنا تھا کہ جمعرات کو 120 سے زائد میزائل شہر پر برسائے گئے۔
یوکرین کی وزارت دفاع کا کہنا ہے کہ تازہ حملوں کے نتیجے میں 18 رہائشی اور 10 دیگر عمارتیں تباہ ہو گئی ہیں۔
خیال رہے پچھلے کچھ عرصے کے دوران روس کی جانب سے توانائی کے ذرائع پر پے در پے حملے کیے گئے جس کی وجہ سے زیادہ تر علاقے بجلی اور گیس سے محروم ہیں اور انتہائی سرد موسم کی وجہ سے رہائشیوں کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔
روس نے رواں سال 24 فروری کو پڑوسی ملک یوکرین پر حملہ کیا تھا جس کے بعد سے مسلسل لڑائی جاری ہے۔
حملے کے بعد امریکہ سمیت کئی مغربی ممالک نے روس پر معاشی پابندیاں بھی عائد کیں تاہم جنگ نہیں رک سکی۔
روسی صدر ولادیمیر پوتن کا کہنا ہے کہ یوکرین کے ہتھیار ڈالنے تک جنگ جاری رہے گی جبکہ یوکرین صدر زیلنسکی کہتے ہیں کہ کسی صورت ہتھیار نہیں ڈالے جائیں گے۔
روسی صدر پوتن جوہری ہتھیاروں کے استعمال کی دھمکی بھی دے چکے ہیں جس کے بعد عالمی سطح پر خدشات میں اضافہ ہوا ہے۔