Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بھتے کی کالیں: خیبرپختونخوا میں اب ڈاکٹرز بھی نشانے پر

خیبرپختونخوا میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایک بار پھر بھتہ مافیا بھی سرگرم ہوگیا ہے۔  
صنعتکاروں کے بعد اب ڈاکٹروں کو بھتے کے لیے نامعلوم نمبروں سے کالیں موصول ہورہی ہیں۔
خیبرپختونخوا میں ایک مہینے کے اندر 30 سے زائد ڈاکٹروں کو بھتے کی کالیں موصول ہوئیں۔
سینیئر ڈاکٹروں سے پیسوں کا مطالبہ کرکے اغوا یا پھر جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جارہی ہیں۔ 
صوبائی ڈاکٹر ایسوسی ایشن کے چیئرمین ڈاکٹر قاضی شہباز محی الدین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انہیں نامعلوم نمبر سے کال موصول ہوئی اور دس لاکھ روپے کا مطالبہ کیا گیا۔
’نامعلوم کالر نے پہلے  میری فیملی کے بارے میں بتایا پھر گھر کا ایڈریس اور گاڑی کا نمبر بھی بتایا۔ کالر ے پیسے نہ دینے کی صورت میں سنگین نتائج کی دھمکی بھی دی۔‘
ڈاکٹر قاضی کے مطابق پشاور کے دیگر سینیئر ڈاکٹروں کو بھی بھتے کی کالیں موصول ہوئی ہیں مگر وہ ڈر کی وجہ سے سامنے نہیں آرہے ہیں۔
ان کے مطابق بھتے کی ان کالوں  کی وجہ سے پوری کمیونٹی تشویش میں مبتلا ہے۔
متعلقہ اداروں کو چاہیے کہ وہ ڈاکٹروں کے خدشات کو دور کرنے  کے لیے فوری اقدامات کرے۔
کرک سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر شیراز خٹک بھی بھتہ خوروں سے پریشان ہیں۔
ڈاکٹر شیراز نے اردو نیوز کو بتایا کہ وٹس ایپ پر افغانستان کے نمبر سے کال آئی اور 20 لاکھ روپے امداد کا مطالبہ کیا گیا۔ ’جب میں نے انکار کیا تو دھمکیاں دی گئیں۔‘
’مجھے ڈر ہے کہ  ہسپتال سے کلینک  یا گھر جاتے ہوئے کوئی مجھے اغوا نہ کرلے۔ ہمیں حکومت تحفظ فراہم کرے ورنہ ہم ملک چھوڑنے پر مجبورہوجائیں گے۔‘
ینگ ڈاکٹر ایسوسی ایشن خیبرپختونخوا کے صوبائی ترجمان ڈاکٹر فیصل بارکزئی نے اردو نیوز کو بتایا کہ صوبے کے سینیئر ڈاکٹروں کو بھتے کالیں آرہی ہیں۔ ’زیادہ تر ان ڈاکٹروں کو کالیں آرہی ہیں جو اپنا کلینک چلارہے ہیں۔
’ڈاکٹرز خوفزدہ ہیں اور ڈر کی وجہ سے وہ اپنی شناخت بھی ظاہر کرنا نہیں چاہتے ہیں۔‘

ایڈیشنل آئی جی پولیس محمد علی بابا خیل نے بتایا تھا کہ بھتے کی 99 فیصد کالیں ہمسایہ ملک افغانستان سے آتی ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ڈاکٹر فیصل کے مطابق ڈاکٹروں نے اسلحہ لائسنس حاصل کرنے کے لیے درخواستیں دی ہیں مگر کئی ماہ گزرنے کے باوجود لائسنس جاری نہ ہوسکے۔
’ہم چاہتے ہیں ماضی کی طرح ڈاکٹروں کو اپنی حفاظت کے لیے اسلحہ پرمٹ جاری کیے جائیں تاکہ ہم اپنی حفاظت خود کرسکیں۔‘
گذشتہ روز ضلع بنوں میں ڈاکٹر کو اغوا کرنے کی کوشش کی بھی گئی جس کے خلاف آج تین بڑے ہسپتالوں میں او پی ڈی بند کرکے احتجاج کیا جارہا ہے۔ 
ڈاکٹر فیصل کا کہنا تھا کہ صوبائی حکومت نے ڈاکٹروں کے تحفظ کے لیے سکیورٹی ایکٹ تو اسمبلی سے پاس کرایا مگر اس پر عمل درآمد نہیں کیا گیا۔

صوبائی وزیر صحت کا موقف

 اردو نیوز نے صوبائی وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا سے موقف کے لیے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کسی ڈاکٹر نے ان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں اس معاملے سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔
’اگر ڈاکٹرز یا ہیلتھ ورکرز کو ایسا کوئی مسئلہ ہے تو ہم ضرور ان کی مدد کریں گے۔‘
وزیر صحت تیمور سلیم جھگڑا کا کہنا تھا کہ صنعتکار اپنی شکایات لیکر ہمارے پاس آئے تھے جن کے تحفظ کے لیے ہرممکن اقدامات کیے گئے ہیں۔

تیمور جھگڑا کے مطابق ابھی تک کسی ڈاکٹر نے ان سے رابطہ نہیں کیا اور نہ ہی انہیں اس معاملے سے متعلق آگاہ کیا گیا ہے۔(فوٹو: فیس بک)

دوسری جانب انسداد دہشت گردی پولیس کے حکام کا کہنا ہے کہ ڈاکٹرز متعلقہ تھانے جاکر مقدمہ ضرور درج کریں تاکہ تفتیش شروع کیا جاسکے۔
واضح رہے کہ ایڈیشنل آئی جی پولیس محمد علی بابا خیل نے 26 دسمبر کو اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ بھتے کی 99 فیصد کالیں ہمسایہ ملک افغانستان سے آتی ہیں اس لیے ان کو ٹریس کرنے میں مشکل پیش آتی ہے۔
انہوں نے بتایا تھا کہ رواں سال بھتہ خوری کے 69 کیسز درج ہوئے ہیں جبکہ 163 ملزمان گرفتار ہوئے۔

شیئر: