ایران میں موجود حکمرانوں نے 1979 میں شاہ ایران کو معزول کیا تھا۔
ایرانی کرد خاتون مہسا امینی کی ہلاکت کے بعد اب بھی احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
بیرون ملک مقیم ایرانی شہریوں کے اس پیغام سے بظاہر لگ رہا ہے کہ ایک طویل عرصے سے جس اتحاد کی ضرورت تھی اس کو حاصل کرنے کی ایک کوشش ہے۔
پیغام کے مطابق ’2022 ہر عقیدے اور زبان کے لیے یکجہتی کا ایک شاندار سال تھا۔ منصوبہ بندی اور یکجہتی کے ساتھ 2023 فتح کا سال ہوگا۔ یہ ایران میں آزادی اور انصاف کا سال ہوگا۔‘
یہ پیغام امریکہ میں مقیم منحرف ایرانی انسانی حقوق کی کارکن مسیح علی نژاد اور معزول شاہ رضا پہلوی کے بیٹے سمیت مخلتف شخصیات نے سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔
ایرانی حکومت نے دو مظاہرین کو پھانسی دی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
مشہور اداکاراؤں گلشیفتہ فراھانی، نازنین بنیادی اور زر عامر ابراہیمی نے بھی اس پیغام کو سوشل میڈیا پر شیئر کیا۔
گلشیفتہ فراھانی نے انسٹاگرام پر لکھا کہ ’ہم آزادی حاصل کرنے کے لیے متحد ہیں۔ ہم اکٹھے کھڑے ہوں گے اور خاموش نہیں ہوں گے۔‘
مہسا امینی کی دوران حراست ہلاکت کے بعد ایران میں احتجاجی مظاہرے پھوٹ پڑے تھے۔ مہسا امینی کو حجاب مناسب طریقے سے نہ لینے پر گرفتار کیا گیا تھا۔
ایران میں جاری مظاہرے حکومت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیم ایران ہیومن رائٹس نے کہا ہے کہ احتجاجی مظاہروں کے خلاف کریک ڈاؤن میں کم از کم 476 افراد ہلاک ہوئے تھے۔
ایران ہیومن رائٹس کے مطابق احتجاج میں حصہ لینے والے دو مظاہرین کو پھانسی دی جا چکی ہے جبکہ کم از کم 100 افراد جو حراست میں ہیں، ان کو پھانسی دیے جانے کا خدشہ ہے۔