فوری قرض دینے والی موبائل ایپلیکیشنز مالی مددگار یا باعثِ نقصان؟
فوری قرض دینے والی موبائل ایپلیکیشنز مالی مددگار یا باعثِ نقصان؟
پیر 9 جنوری 2023 5:34
اسامہ خواجہ
لگ بھگ ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد صارفین نے انہیں ڈاؤن لوڈ کر رکھا ہے (فائل فوٹو: آئی سٹاک)
مہینے کی آخری تاریخوں میں بجلی کے بل کی ادائیگی کے لیے احسن محمود کو10 ہزار روپے کی ضرورت تھی۔ سوشل میڈیا کی میسیجنگ ایپلیکیشن کے ذریعے انہوں نے اپنے 2 دوستوں سے رابطہ کیا۔ اگلے 24 گھنٹوں تک انہیں کوئی مثبت جواب تو نہیں ملا مگر اپنے موبائل میں موجود سوشل میڈیا کی تمام ایپلی کیشنز پر فوری قرضے کے اشتہارات نظر آنے لگے۔
اس قدر تواتر سے اشتہارات دیکھنے کے بعد احسن کو لگا کہ دوستوں سے تقاضا کرنے کی بجائے یہاں سے قرض لینا بہتر ہے۔ تنخواہ آنے میں زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ مزید لگنا تھا جب کہ زیادہ تر ایپلی کیشنز کئی کئی ماہ کی مہلت دے رہی تھیں۔
گوگل پلے سٹور سے احسن نے ایک ایپلیکیشن انسٹال کی اور قرض کے لیے اپلائی کر دیا۔ ان کے مطابق انہوں نے قرض کے لیے درخواست دیتے وقت سوچا کہ تھوڑی زیادہ رقم لے لیتا ہوں کیونکہ سود صرف ایک فیصد بتایا گیا تھا۔ 15 ہزار کے قرض کی درخواست دینے پر ان کے لیے 7 ہزار کا قرض منظور ہوا مگر انہیں اس میں سے بھی 5 ہزار 600 روپے کی رقم موصول ہوئی۔
قرض ملنے کے چند دن بعد ہی انہیں قرض دینے والی کمپنی کے ایک ریکوری ایجنٹ کی کال موصول ہوئی۔ ریکوری ایجنٹ نے ان سے رقم کی واپسی کا تقاضا کیا تو وہ حیرت میں مبتلا ہو گئے کہ یہ قرض تو انہوں نے ایک ماہ کے لیے لیا تھا۔
ریکوری ایجنٹ نے انہیں کہا کہ اگر وہ 1400 روپے جمع کروا دیں تو انہیں سات دن کی توسیع مل سکتی ہے۔ ایک جاننے والے سے ادھار لے کر انہوں نے 1400 روپے کی رقم جمع تو کرا دی لیکن کچھ دن بعد ایک اور ایجنٹ کی کال انہیں موصول ہوئی۔
احسن کے مطابق وہ اب تک 5600 روپے کے قرض پر 9 ہزار 500 روپے جمع کرا چکے ہیں جب کہ اب بھی ان سے مزید رقم کا تقاضا کیا جا رہا ہے۔ مزید رقم نہ دینے کی صورت میں ان کے رشتہ داروں اور دوستوں کو کالز کی دھمکی دی جا رہی ہے۔
معاملہ صرف یہاں تک محدود نہیں، بلکہ کال کرنے والے ایجنٹ نے انہیں بتایا ہے کہ ان کی موبائل گیلری کے ذریعے سے تصاویر اور ویڈیوز بھی ان کے پاس موجود ہیں۔
موبائل ایپلی کیشنز سے قرض لینے اور واپس نہ کرسکنے کی صورت میں سود در سود کی مد میں قرض سے کہیں زیادہ رقم ادا کرنے پر مجبور ہونے والے احسن اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان دنوں پاکستان میں بہت سے لوگ بالخصوص کم آمدنی والے نوجوان اس کا شکار ہو رہے ہیں۔
ایسے معاملات کے اعداد و شمار جمع کرنے والے ادارے ’ڈیٹا دربار‘ کے شریک بانی مطاہر خان کے مطابق موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے قرض دینے کا آغاز کینیا سے ہوا۔ پھر یہ عمل انڈیا میں مقبول ہوا۔ اس کے ساتھ یہ امریکہ اور برطانیہ وغیرہ میں بھی شروع ہوا مگر قوانین سخت ہونے کے باعث وہاں زیادہ لوگ اس کے شکار نہیں بنے۔
کیا قرض دینے والی موبائل ایپلی کیشنزکے ذریعے دھوکا ہوتا ہے؟
محکمہ داخلہ پنجاب کے انٹیلیجنس سینٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق یہ ایپلیکیشنز صارفین سے ماہانہ بنیادوں پر 40 سے 80 فیصد تک سود وصول کرتی ہیں۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ قرض دیتے وقت زیادہ تر معلومات صارفین سے چھپا لی جاتی ہیں اور قرض مقررہ وقت میں واپس نہ کرنے پر مختلف ریکوری ایجنٹس کے ذریعے کالز کروا کے مقروض شخص کو ہراساں کیا جاتا ہے۔
درخواست دینے والے سے اس کا شناختی کارڈ، تصاویر اور 2 قریبی رشتہ داروں کا ریفرنس لیا جاتا ہے۔ موبائل میں موجود تصاویر، ویڈیوز اور رابطہ نمبر تک ان ایپلیکیشنز کی رسائی میں ہوتے ہیں۔ جن کی بنیاد پر تنگ کیا جاتا ہے اور سود کی مد میں بڑی رقم وصول کی جاتی ہے۔
صارفین کی تعداد کتنی ہے؟
اس وقت پاکستان میں قرض فراہم کرنے کے لیے متعدد ایپلیکیشنز موجود ہیں۔
’ڈیٹا دربار‘ کی جاری کردہ رپورٹ کے مطابق لگ بھگ ایک کروڑ 90 لاکھ سے زائد صارفین نے انہیں ڈاؤن لوڈ کر رکھا ہے۔
محکمہ داخلہ پنجاب کی رپورٹ کے مطابق پہلی 10 ایپلیکیشنز کو ڈاؤن لوڈ کرنے والے صارفین کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے۔
مطاہر خان کے مطابق یہ ضروری نہیں کہ ڈاؤن لوڈ کرنے والے تمام ہی صارفین نے قرض کی درخواست دی ہے اور انہوں نے قرض بھی لیا ہو۔ چند ایک ایپلیکیشنز ہی رجسٹرڈ ہیں اور ان میں بھی کوئی خاص فرق نہیں ہے۔
سوشل میڈیا کمپنیاں ایسے اشتہارات کو روکتی کیوں نہیں؟
اشتہارات سے زیادہ اس معاملے میں ذمہ داری گوگل کی ہے جو بطور ریگولیٹر یہ فیصلہ کرتا ہے کہ ان ایپلیکیشنز کو پلےاسٹور پر رہنا ہے یا نہیں۔
مطاہر خان کہتے ہیں کہ امریکہ میں اوسطاً 36 فیصد سے زیادہ والی قرضہ ایپلیکیشنز کو پلے سٹور سے ہٹا دیا جاتا ہے جب کہ پاکستان میں اس حوالے سے ابھی تک کوئی پالیسی نہیں ہے۔ یہاں یہ بھی نہیں دیکھا جاتا کہ یہ کمپنیاں مقامی قوانین سے مطابقت بھی رکھتی ہیں یا نہیں۔
قرض دینے والی ایپلیکیشنز اور ان کمپنیوں کی قانونی حیثیت کیا ہے؟
سکیورٹی اینڈ ایکسچینج کمیشن پاکستان کے ترجمان کے مطابق قرض دینے کے لیے نان بینکنگ فنانشل سروسز کے تحت کمپنی رجسٹرڈ کروانا ہوتی ہے۔
’پاکستان میں فوری قرض کے حوالے سے ایس ای سی پی نے حال ہی میں ایک سرکلر جاری کیا تھا جس کے مطابق موبائل ایپلیکیشنز کے ذریعے قرض دینے والی کمپنیوں کو پی ٹی اے سے رجسٹرڈ ہونا لازمی ہے۔‘
ترجمان ایس ای سی پی کے مطابق اس مد میں اب تک 11 کمپنیاں رجسٹرڈ ہیں۔ جن میں کچھ کمپنیاں دکانداروں اور گھر بیٹھے خریداری کے عمل میں سہولت پیدا کرنے کے لیے کام کر رہی ہیں۔ جب کہ باقی کمپنیاں عوام کو فوری قرض دے رہی ہیں۔
ترجمان کے مطابق ایس ای سی پی ایسے اقدامات اٹھا رہا ہے جن سے ایسی ایپس کا خاتمہ ہو سکے جو لوگوں کو سہولت دینے کی بجائے ان کو دھوکہ دیتی ہیں۔
تاہم اس سلسلے میں ابھی تک کوئی بڑی آگاہی مہم نہیں چلائی گئی جس میں لوگوں کو غیرقانونی اور دھوکہ دینے والے قرض ایپس کے بارے میں بتایا جا سکے۔