Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

اعتماد کا فقدان، پراپرٹی سیکٹر میں اوورسیز پاکستانیوں کی سرمایہ کاری رُک گئی

اسلام آباد میں پراپرٹی کی ٹرانسفر فیس 11 فیصد تک بڑھا دی گئی ہے۔ (فائل فوٹو: اے پی پی)
برطانیہ میں مقیم ناظم شبیر پاکستان آئے تو انہیں ایک دوست نے ریئل سٹیٹ میں سرمایہ کاری کا مشورہ دیا۔
ناظم شبیر کو مشورہ اچھا لگا اور انہوں نے راولپنڈی میں اپنا ملکیتی گھر فروخت کر کے سرمایہ کاری کا فیصلہ کیا۔
ایک دوست کے توسط سے انہیں ایک معروف ہاؤسنگ سکیم میں کمرشل پراجیکٹ کے بارے میں معلوم ہوا۔ ارسلان حمید نامی شخص نے انہیں گھر کے بدلے اپنے کمرشل پلازے میں دکان کی فائل تھمائی، اور اس سودے کی مالیت 1 کروڑ 26 لاکھ روپے قرار پائی۔
ناظم شبیر کے مطابق فروری 2022 میں اس ڈیل سے قبل انہوں نے متعلقہ سوسائٹی کے دفتر سے اس پراجیکٹ کے بارے میں پتا کیا تو ان کا کہنا تھا کہ یہاں آنکھیں بند کر کے سرمایہ کاری کریں۔ ان کے بقول سوسائٹی انتظامیہ نے کہا کہ اور بھی بے شمار لوگ ان پراجیکٹس میں سرمایہ کاری کر رہے ہیں، اس لیے وہ بے فکر رہیں۔ اس ڈیل کے بعد انہیں معاہدے کے مطابق دکان کا کرایہ بھی ملنا شروع ہو گیا۔
مگر کرایہ ملنے کا یہ سلسلہ صرف 2 ماہ ہی چل سکا۔ جب تیسرا مہینہ گزر گیا اور کرایہ نہیں ملا تو انہوں نے باقی سرمایہ کاروں سے پتا چلانے کی کوشش کی۔ کچھ دنوں میں انہیں معلوم ہو گیا کہ ارسلان حمید فرار ہو چکا ہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ ان کی دکان کے مزید دعوے دار بھی سامنے آئے جس سے معلوم ہوا کہ ایک ہی چیز کو کئی کئی بار فروخت کیا جا چکا تھا۔
ناظم شبیر اب تک انصاف کے تمام دروازے کھٹکھٹا چکے ہیں مگر تاحال انہیں انصاف نہیں مل سکا۔
ناظم شبیر کے مطابق ارسلان حمید نامی شخص نے جن 3 شاپنگ مالز میں فراڈ کیا اس کے سینکڑوں متاثرین سے تقریباً ساڑھے 4 ارب کی رقم لوٹی گئی۔

فراڈ اور دھوکہ دہی کے واقعات نے پاکستان کے ریئل سٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے اعتماد کو نقصان پہنچایا ہے (فائل فوٹو: فیس بک)

اس فراڈ کے متاثرین کی کمیٹی کے سربراہ اور فیڈریشن آف ریئلٹیرز پاکستان کے صدر مسرت اعجاز خان نے اردو نیوز کو بتایا کہ مالز کے اندر دکانوں اور فلیٹس کی مد میں تقریباً 5 ارب روپے لوٹے گئے ہیں جب کہ اس کے علاوہ بھی کئی لوگوں کو پھنسا کر رقم ہتھیائی گئی ہے، جس کی کل مالیت 12 ارب روپے تک ہے۔
ان کے مطابق وہ اس رقم کی واپسی کے لیے جدوجہد کر رہے ہیں اور اس سے متعلقہ ہر ادارے سے کارروائی کے لیے رابطے میں ہیں۔
لیکن  پاکستان میں پراپرٹی کے شعبے میں فراڈ کا یہ کوئی پہلا معاملہ نہیں ہے۔ بلکہ آئے روز غیرقانونی کمرشل و ہاؤسنگ پراجیکٹس، قواعد و ضوابط سے ماورا سوسائٹیز اور ایک ہی فائل کو کئی بار بیچنے جیسے بے شمار واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔
فراڈ اور دھوکہ دہی کے ایسے واقعات نے پاکستان کے ریئل سٹیٹ سیکٹر میں سرمایہ کاری کرنے والوں کے اعتماد کو بہت نقصان پہنچایا ہے، اور وہ اب کئی حقیقی منصوبوں میں بھی  پیسہ لگانے سے خائف ہیں۔
سرمایہ کار ہارون احمد کہتے ہیں کہ اب سرکاری اداروں سے منظور شدہ پراجیکٹ کے اصلی ہونے پر بھی یقین نہیں آتا اور خدشہ رہتا ہے کہ کل کو عدالتیں اسے غیرقانونی قرار نہ دے دیں۔

نئی سوسائٹیز میں پلاٹ اور فائلوں میں فراڈ کے باعث سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

 کراچی کے نسلہ ٹاور کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہارون احمد کا کہنا تھا کہ یہاں زمینیں ان کے قانونی مالکان سے چھن جاتی ہیں تو ایسے میں سرمایہ کاری کے معاملے میں دھوکہ دینے والوں کو کون پکڑے گا۔
اگر معاملات ایسے رہے تو ریئل اسٹیٹ میں تیزی سے جو سرمایہ کاری ہوئی تھی وہ ختم ہو جائے گی۔

ٹیکس میں اضافہ، پراپرٹی فائلوں کی قیمتیں گر گئیں

عدیل نصیر جو گزشتہ ایک دہائی سے پاکستان کے وفاقی دارالحکومت  اسلام آباد میں جائیدادوں کی خرید و فروخت کے کاروبار سے منسلک ہیں کہتے ہیں کہ پراپرٹی کی ٹرانسفر فیس میں اضافہ بھی عام لوگوں کو اس کاروبار سے دور کر رہا ہے۔
عدیل کے مطابق موجودہ حکومت وفاق میں پراپرٹی کی ٹرانسفر فیس11 فیصد پر لے گئی ہے جس کے باعث اس شعبے میں خرید وفروخت رُک گئی ہے۔
اب ضرورت کی حد تک تو مکانات کی تعمیر اور پلاٹ وغیرہ کی خرید و فروخت جاری ہے لیکن سرمایہ کاری کے نقظۂ نظر سے ہونے والی خرید و فروخت کچھ عرصے سے تقریباً رُک گئی ہے۔
پلاٹ اور تیار شدہ مکانوں کی قیمت تو اگرچہ کم نہیں ہوئی مگر سرمایہ نکلنے سے فائلوں کی قیمتیں کافی نیچے بھی آئی ہیں۔ اس لیے وہ لوگ جن کے پاس ایسی سوسائیٹیز کی فائلیں تھیں جن کے سرکاری کاغذ کلئیر نہیں تھے، انہیں خاصا نقصان ہوا ہے۔

عالمی سطح پر معاشی سرگرمیاں متاثر ہونے کے اثرات پاکستان کے پراپرٹی سیکٹر پر بھی آئے ہیں (فائل فوٹو: روئٹرز)

آل پاکستان بلڈرز اینڈ ڈویلپرز ایسوسی ایشن کے سرپرست محسن شیخانی کے خیال میں عالمی سطح پر معاشی سرگرمیاں متاثر ہونے کے اثرات پاکستان کے پراپرٹی سیکٹر پر بھی آئے ہیں لیکن شرح سود میں اضافہ ترقی رکنے کی ایک بڑی وجہ ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ سٹیٹ بینک کی پہلے گھر کے لیے 5 فیصد ریٹ پر قرض کی پالیسی نے تعمیراتی شعبے کو کاروبار کے لیے بہتر موقع دیا تھا۔ اب جن لوگوں کے پاس ایک گھر بھی نہیں ہے تو وہ 15،16 فیصد شرح سود پر اپنا گھر کیسے بنائیں گے؟
اسی طرح گھر بنانے کے لیے تعمیراتی سامان کی قیمت بھی بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔   

کاروبار  میں مندی کے باوجود نئی رہائشی سوسائیٹیوں کی لانچنگ کیوں؟

محسن شیخانی کے مطابق موجودہ معاشی صورتحال میں کاروبار آدھے سے بھی کم رہ گیا ہے۔
نئی سوسائٹیوں سے متعلق وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی ہاؤسنگ پراجیکٹ کی منظوری کے لیے سالہا سال کا عرصہ لگ جاتا ہے۔ ایسے میں جو سوسائٹیز منظوری کے عمل میں تھیں وہ جیسے ہی منظور ہوتی ہیں تو ان کو شروع کرنے میں زیادہ تاخیر نہیں کی جا سکتی۔
تاہم ان کا کہنا ہے کہ ریئل اسٹیٹ سیکٹر میں حقیقی ترقی گھروں کی تعمیر سے ممکن ہے لیکن پاکستان میں سیمنٹ، سٹیل اور سریے کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہاں تعمیرات میں کمی ہو رہی ہے۔ جبکہ تعمیرات میں استعمال ہونے والے سامان کی قیمت کچھ ہی عرصے میں تقریباً دگنی ہو گئی ہے۔

بیرون ملک پاکستانیوں کی سرمایہ کاری میں کمی

محمد عدیل کہتے ہیں کہ ریئل اسٹیٹ اور ڈویلپمنٹ کے شعبے میں بڑی سرمایہ کاری اوور سیز پاکستانی کرتے تھے اور گزشتہ عرصے میں جب ایمنسٹی وغیرہ متعارف کرائی گئی تھی تو ٹیکس وصول کرنے والے ادارے بھی اتنا تنگ نہیں کرتے تھے۔ ان کے مطابق موجودہ دور میں ڈالرز پاکستان لانا بھی مشکل کر دیا گیا ہے، جب ایسے حالات ہوں گے تو کون سرمایہ کاری کرے گا۔

پاکستان میں سیمنٹ، سٹیل اور سریے کی پیداوار میں مسلسل کمی ہو رہی ہے (فائل فوٹو: روئٹرز)

فیڈریشن آف ریئلٹیرز پاکستان کے صدر مسرت اعجاز خان کے مطابق موجودہ حکومت نے اپنی پالیسیوں سے ترقی کرنے والے شعبے بھی بند کردیئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ تو اس وقت بیرون ملک سے ڈالرز آ رہے ہیں اور نہ ہی کوئی سرمایہ کاری ہو رہی ہے۔

پراپرٹی سیکٹر بحال کیسے ہو سکتا ہے؟

محسن شیخانی کے مطابق تعمیراتی میٹیریل کی قیمت میں ایک بار اضافہ ہوچکا ہے تو اس میں کمی ممکن نظر نہیں آتی۔ البتہ کچھ ایسی چیزیں ہیں، جو حکومت کے اپنے ہاتھ میں ہیں۔ اگر اس شعبے کو مزید تباہی سے بچانا ہے تو ٹیکس پالیسی پر نظرثانی کی اشد ضرورت ہے۔
اوور سیز پاکستانیوں کو خریداری ، ملکیت اور ٹرانسفر پر ٹیکس چھوٹ دی جائے تاکہ سرمایہ کاری آ سکے۔ سیکشن’ 236 سی‘ اور’ 236 کے‘ کے تحت لگائے گئے ٹیکس کو واپس فائلر کے لیے ایک فیصد اور نان فائلر کے لیے دو فیصد کیا جائے۔ 
اسی طرح سٹیٹ بینک کی ہاؤسنگ فنانس پالیسی کو پرانی سطح پر بحال کرنے سے اس شعبے کی کاروباری سرگرمیوں کو مدد مل سکتی ہے۔

شیئر: