Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ایم ہاؤس کے اخراجات میں کمی، ’عمران خان حکومت نے نو کروڑ بچائے‘

دعویٰ کیا گیا تھا کہ وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات 28 کروڑ تک محدود کیے (فوٹو: اے پی پی)
کابینہ ڈویژن نے سابق وزیراعظم عمران خان کے دورِ حکومت میں کفایت شعاری کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں کمی کے دعووں کے حوالے سے انکشاف کیا ہے کہ چار برس میں 31 کروڑ نہیں دراصل نو کروڑ روپے ہی بچائے گئے تھے۔
سابق وزیراعظم عمران خان کے دور حکومت میں یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ انھوں نے کفایت شعاری کے ذریعے وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات 59 کروڑ سے کم کرکے 28 کروڑ تک محدود کر دیے تھے۔
لیکن کابینہ ڈویژن کی سینیٹ آف پاکستان میں پیش کی گئی رپورٹ کے مطابق ’وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات 59 کروڑ نہیں بلکہ 50 کروڑ 9 لاکھ روپے تھے جنھیں کم کرکے 28 کروڑ نہیں بلکہ 30 کروڑ روپے تک لایا گیا۔‘
اعدادوشمار کے مطابق 2017-18 میں وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات 59 کروڑ، 2018-19 میں 37 کروڑ، 2019-20 میں 31 کروڑ 60 لاکھ جبکہ 2020-21 میں 30 کروڑ 45 لاکھ سے زائد رہے۔
کفایت شعاری کی پالیسی کے تحت اگرچہ اخراجات میں مسلسل کٹوتی کی جاتی رہی لیکن وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں سب سے بڑی کٹوتی جو کُل اخراجات کا 55 فیصد بنتی تھی وہ ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں کی گئی۔
2017-18 کے بجٹ میں یہ رقم 34 کروڑ سے زائد تھی جبکہ 2020-21 میں یہ رقم 22 کروڑ تک لائی گئی۔

وزیراعظم ہاؤس کے اخراجات میں سب سے بڑی کٹوتی ملازمین کی تنخواہوں اور مراعات کی مد میں کی گئی (فوٹو: اے ایف پی)

کابینہ ڈویژن کا کہنا ہے کہ ’وزیراعظم ہاؤس سے غیر ضروری عملے کی کمی ایک مسلسل عمل ہے۔ 2013 میں وزیراعظم ہاؤس کی 494 پوسٹوں میں سے 258 کم کر دی گئی تھیں۔ 2018 سے 2021 کے دوران وزیراعظم ہاؤس کی 152 پوسٹیں کم کی گئیں۔‘
یہ بات بھی مدنظر رکھنی چاہیے کہ جو لوگ وزیراعظم ہاؤس سے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن بھیجے گئے وہ سرپلس پول میں رکھے گئے جنھیں بعد ازاں دیگر وزارتوں میں تعینات کیا گیا۔
کابینہ ڈویژن کے مطابق وزیراعظم ہاؤس سے پوسٹیں کم کرنے کے باوجود وہ سرکاری ملازم رہے اور انھیں وفاقی بجٹ سے ہی تنخواہیں اور مراعات ملتی رہی ہیں۔
اس کے علاوہ وزیراعظم کے شہر کے اندر سفری اور سکیورٹی اخراجات بھی وزیر اعظم ہاؤس کے بجائے اسلام آباد پولیس اور سی ڈی اے کے ذمہ تھے۔
کابینہ ڈویژن کی جانب سے اخراجات اور ان میں سالانہ کٹوتی کی تفصیلات فراہم کرتے ہوئے بتایا گیا ہے کہ ’تحریک انصاف کے دور حکومت میں وزیراعظم ہاؤس میں جو اخراجات کم کیے گئے ان میں سب سے زیادہ تنخواہوں اور مراعات کی مد میں 55 فیصد یعنی 12 کروڑ روپے سے زائد کم کیے گئے۔‘
دفتری اخراجات میں 6 فیصد، انٹرٹینمنٹ اور لائٹ ریفریشمنٹ میں کمی کے ذریعے 7.8 فیصد، کیس ایوارڈز اور تحائف میں کمی لاکر 4.7 فیصد، اثاثہ جات کی مد میں 12 فیصد جبکہ گاڑیوں کے اخراجات میں 3.8 فیصد کمی لائی گئی۔
کابینہ ڈویژن کے مطابق ملازمین کی مد میں کی گئی 55 فیصد یعنی نصف سے زائد بچت دراصل بچت نہیں ہے بلکہ اس مد میں ملازمین کو وفاقی بجٹ سے تنخواہ ادا کی جاتی رہی ہیں۔
کابینہ ڈویژن کا کہنا ہے کہ ’اس کے برعکس مالی سال 2022-23 میں کفایت شعاری کی جو پالیسی اپنائی گئی ہے اس کے مطابق سرکاری اداروں میں بجلی اور دیگر یوٹیلٹیز کے استعمال میں 10 فیصد، گاڑیوں کے اخراجات میں 30 فیصد کمی لائی گئی ہے اور اندرون و بیرون ملک سفر میں کمی کرتے ہوئے زوم میٹنگز کو فروغ دیا جا رہا ہے۔‘
اسی طرح طویل عرصے سے خالی اور غیر ضروری پوسٹوں کو ختم کیا جا رہا ہے۔ وزراء کے لیے گاڑیوں کے ایندھن میں 40 فیصد کمی لائی گئی ہے جبکہ سکیورٹی کی گاڑیاں میں 50 فیصد کمی عمل میں لائی گئی ہے جبکہ سکیورٹی پر سمجھوتہ کیے بغیر وی وی آئی پی سکیورٹی سکواڈز کے اخراجات بھی کم کیے جا رہے ہیں۔

شیئر: