Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

بلدیاتی انتخابات: کراچی میں پی ٹی آئی رہنماؤں پر دہشتگردی کا مقدمہ

ایک شخص سٹال پر پیپلز پارٹی اور پی ٹی آئی کے جھنڈے اور ٹوپیاں فروخت کر رہا ہے۔ فوٹو: عرب نیوز
کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے نتائج پر احتجاج کرنے والے پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں پر انسداد دہشتگردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔
ایف آئی آر میں سابق وفاقی وزیر علی زیدی، پی ٹی آئی کراچی کے صدر بلال غفار اور سعید آفریدی سمیت متعدد رہنماؤں کو نامزد کیا گیا ہے۔
سندھ اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حلیم عادل شیخ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ صوبائی حکومت مخالفین پر جعلی مقدمات بنا رہی ہے۔ ’کرپشن، بدعنوانی کے خلاف اور اپنے حقوق کے لیے آواز اٹھانے والوں پر دہشتگردی کے مقدمات درج کیے جا رہے ہیں۔‘
اُن کا کہنا تھا کہ بدھ کو کراچی میں ڈی آر او آفس پر علی زیدی سمیت پی ٹی آئی کے کارکنوں پر پیپلز پارٹی کے ورکرز نے حملہ کیا اور مقدمہ بھی صرف پی ٹی آئی کے خلاف ہی درج کیا گیا۔ 
حلیم عادل شیخ نے کہا کہ پیپلز پارٹی انسداد دہشتگردی کے قانون کا غلط استعمال کر رہی ہے۔
کراچی پولیس کے ترجمان نے بتایا کہ مقدمہ قانون کے مطابق درج کیا گیا ہے۔ ’شہریوں کی جان و مال کا تحفظ قانون نافذ کرنے والے اداروں کی ذمہ داری ہے۔ جہاں بھی قانون ہاتھ میں لیا جائے گا وہاں قانون حرکت میں آئے گا۔‘
ترجمان کا کہنا تھا کہ سیاسی معاملات سے پولیس کا کوئی تعلق نہیں۔ پولیس اپنی ذمہ داری احسن انداز میں نبھا رہی ہے۔
یاد رہے کہ 18 جنوری کی شام کراچی کے ضلع کیماڑی میں ڈپٹی کمشنر ہاؤس کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنون نے سندھ میں بلدیاتی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج کی مبینہ تبدیلی کے خلاف احتجاجی دھرنا دیا تھا۔ جہاں پیپلز پارٹی کے کارکن کے بھی پہنچ گئے۔
دونوں جماعتوں کے کارکنان نے نہ صرف ایک دوسرے کے خلاف نعرے بازی کی بلکہ لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے حملہ آور ہوئے اور پتھراؤ بھی کیا۔
پولیس نے موقع پر پہنچ کر صورتحال کو کنٹرول کیا۔ بعد ازاں پی ٹی آئی نے حبیب بینک چورنگی پر احتجاجی دھرنا دیا اور سڑک بلاک کی جس پر پولیس نے کارروائی کرتے ہوئے لاٹھی چارج کیا اور پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کو حراست میں لیا۔ رات گئے واقعہ کا مقدمہ درج کیا گیا۔

انسداد دہشت گردی کا قانون سنہ 1997 میں متعارف کرایا گیا تھا۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

سابق وفاقی وزیر علی زیدی، تحریک انصاف کراچی کے صدر بلال غفار سمیت دیگر پر دہشتگری کی دفعات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا۔ قبل ازیں مختلف مقدمات میں ہنگامہ آرائی اور دیگر الزامات میں اتوار سے اب تک پی ٹی آئی کے متعدد کارکنوں کو حراست میں لیا جا چکا ہے۔
دادو سے بلدیاتی انتخابات میں کامیابی حاصل کرنے والے امیدوار اور کراچی سے تین رہنماؤں کو گرفتار بھی کیا جا چکا ہے۔ 

دہشتگردی کی دفعہ 7 اے ٹی اے کیا ہے اور کن پر لگائی جاتی ہے؟

ماہر قانون حسان صابر ایڈووکیٹ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ میں شق نمبر 6 کی خلاف وزری پر سزا کے طور 7 اے ٹی اے لگائی جاتی ہے۔ لیکن اکثر اس قانون کو پڑھے اور سمجھے بغیر یہ دفعہ لگائی جاتی ہے جس سے اس قانون کا اثر کم ہونے کا خدشہ ہے۔
انہوں نے کہا کہ عام طور یہ سننے میں آتا ہے کہ مقدمے میں 7 اے ٹی اے لگائی گئی ہے۔ اس سے مراد ہے کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ کی شق نمبر 7 کا استعمال کرتے ہوئے مقدمہ درج کیا گیا ہے جو ناقابل ضمانت ہے۔  
کراچی میں 18 جنوری کو درج ہونے والے مقدمے پر ان کا کہنا تھا کہ عوامی احتجاج پر 7 اے ٹی اے نہیں لگائی جا سکتی۔ البتہ سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے یا انتخابی عمل میں رکاوٹ پر الیکشن کمیشن کو دیے گئے اختیارات میں یہ دفعہ استعمال کی جا سکتی ہے۔
سینیئر کورٹ رپورٹر بلال احمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ انسداد دہشتگردی ایکٹ 1997 میں لایا گیا تھا۔ جس کا مقصد دہشتگردی کے واقعات کی روک تھام اور ان واقعات میں گرفتار ہونے والے ملزمان کو تیز ترین عدالتی کارروائی کے ذریعے سزائیں دینا مقصود تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’تاہم پولیس سمیت دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کی جانب سے اس قانون کا معمولی واقعات اور سیاسی، مذہنی تنازعات میں بے دریغ استعمال دینے میں آ رہا ہے۔ جس پر متعدد بار اعلیٰ عدالتیں دہشتگردی کی تشریح سے متعلق کئی اہم فیصلے جاری کر چکی ہے۔‘
 

شیئر: