معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ ڈالر ریٹ کو آزاد کرنے پر ڈالر کی قیمت میں مسلسل اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) کی شرائط سمیت دیگر معاملات کی وجہ سے روپے پر دباؤ ہے۔
سٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد شمار کے مطابق رواں ہفتے روپے کی قدر میں مجموعی طور پر 32 روپے کی کمی ریکارڈ کی گئی۔
رواں ہفتے کے آغاز پر ایک امریکی ڈالر کی انٹر بینک مارکیٹ میں قیمت 230 روپے تھی اور کاروباری ہفتے کے آخری روز جمعے کو انٹربینک مارکیٹ میں 262 روپے پر مارکیٹ بند ہوئی ہے۔
دوسری جانب فاریکس ڈیلرز کا کہنا ہے کہ اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قیمت 255 روپے سے بڑھ کر 270 روپے کی سطح پر آگئی ہے۔
معاشی امور کے ماہر خرم حسین نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’ڈالر کے ریٹ کو روکنے کے منفی اثرات اب مارکیٹ میں نظر آرہے ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے ڈالر ریٹ کو ہولڈ کرنا ایک غلط فیصلہ تھا۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’موجودہ صورتحال میں آئی ایم ایف کا پریشر ہے اور ملکی معیشت کے لیے آئی ایم ایف کی قسط بہت ضروری ہے۔‘
ڈالر کے موجودہ ریٹ پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ’جمعے کو ڈالر جس ریٹ پر بند ہوا ہے، امکان ہے کہ نئے کاروباری ہفتے کے آغاز پر ڈالر کی قدر میں مزید اضافہ دیکھا جائے گا۔‘
ایکسچینج کمپینیز ایسوسی ایشن آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ کے مطابق انٹر بینک اور اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی قدر میں اضافے کے فائدے بھی ہیں اور نقصان بھی ہیں۔
’اگر فوائد کی بات کی جائے تو پاکستان میں آئی ایم ایف سے معاملات طے ہونے کی امید بڑھ گئی ہے۔ آئی ایم ایف پروگرام بحال ہو گا تو بیرون ممالک سے طے شدہ رقم بھی پاکستان آئے گی اور ملکی زرمبادلہ کے ذخائر کو سہارا ملے گا۔‘
’ان کا کہنا تھا کہ ڈالر کی قیمت اصل حالت میں بحال ہونے پر حوالہ ہنڈی کے کاروبار میں کمی ہوگی، ترسیلات زر میں اضافے کے امکانات ہیں۔‘
نقصانات پر بات کرتے ہوئے ظفر پراچہ کا کہنا تھا کہ ’ڈالر کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی میں اضافہ ہو گا اور پاکستان میں درآمد کی جانے والی تمام اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا۔‘