شہری برھتی ہوئی مہنگائی سے پریشان ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
ہر آنے والا دن عوام کے لیے معاشی طور پر ایک نئی آزمائش لے کر آتا ہے۔ اب تو ٹی وی پر تیل کی قیمت بڑھنے کے ساتھ پیٹرول بم کی اصطلاح بھی عام سی لگنا شروع ہو گئی ہے۔ دودھ کے ایک لیٹر کی قیمت اگر ایک گیلن کے قریب پہنچ گئی ہے تو اس کا اثر بھی زیادہ عرصہ نہیں رہتا۔
بے روز گاری اور معاشی بدحالی عروج پر ہے۔ کاروبار اور صنعتیں بند ہو رہی ہیں اور ’ہم دیوالیہ ہو نہیں رہے بلکہ ہم دیوالیہ ہو چکے ہیں‘ یہ اب سرکاری بیان ہے۔
سوال یہ بھی ہے کہ جن پر صورت حال پر قابو پانے کی ذمہ داری ہے وہ کیا کر رہے ہیں؟ جواب اس کا واضح ہے۔ ذمہ داران مملکت و سیاست بے خبری، بے سمتی اور بے حسی کے مختلف مرحلوں میں ہیں۔
حکومت کی بات کریں تو ن لیگ اور پیپلز پارٹی تجربہ کاری اور مہارت کے دعووں کے ساتھ اقتدار میں ہیں۔ ان کے دعووں کی قلعی کھلے بھی ایک مدت ہو چکی ہے۔ اسحاق ڈار سے لے کر شہباز شریف تک ایک سے بڑھ کر ایک مثال ہے بے بسی اور بے سمتی کی۔
ایسا نہیں کہ ان کو حل کا اندازہ نہ ہو۔ ایسے وقت میں جب بقول خود زہر کھانے کے پیسے نہ ہوں، کابینہ کی تعداد 100 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ بخوبی جانتے ہوئے کہ سرکاری نقصان میں جانے والے اداروں کی نجکاری ناگزیر ہے، دونوں پارٹیوں نے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ یہ وقتی طور پر غیرمقبول ہونے کا باعث ہو گا۔
پیپلز پارٹی تو بڑے آرام سے ایسے حکومت میں ہے کہ جیسے ہے بھی اور نہیں بھی۔ وزیر خارجہ کی اگلے عہدے کے لیے انٹرن شپ بخوبی چل رہی ہے۔
پی ٹی آئی اپوزیشن میں ہے مگر اسمبلی میں نہیں اور ان کا واحد مقصد الیکشن کا انعقاد ہے۔ یقیناً یہ ان کا جمہوری حق ہے کہ وہ اسمبلی میں رہیں یا نہیں۔ یہ بھی ان کا حق ہے کہ وہ حکومت کے اقدامات پر تنقید کریں مگر ان کا ریکارڈ بھی ملک کے معاشی معاملات کے معاملے میں کوئی خاص حوصلہ افزا نہیں۔ ان کی طرف سے بار بار حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے مگر آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدوں سے جو کرائسز پیدا ہوا اس کی شروعات انہی کے دور سے ہوئی۔
آئندہ بھی اگر ان کو حکومت ملی تو وہ کیا ایسا کریں گی جو ملک کو اس گرداب سے نکالے گا، اس کا بھی کسی کو اندازہ نہیں ہے۔ کیا ان کا آغاز بھی اسی بے خبری سے ہو گا جس کا اب وہ اعتراف کر رہے ہیں۔
حکومت کے ساتھ ریاست اور اس کے اداروں کا بھی کردار اہم رہا ہے اور اہم ہے۔ ایک طرف الیکشن کو کے حوالے سے الیکشن کمیشن پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور دوسری طرف سیاسی رہنماؤں پر ہونے والے آئے دن مقدمات سے بے سمتی کا اندازہ ہوتا ہے۔
اس وقت کوئی ایسا فورم، کوئی ایسا پلیٹ فارم اور کوئی ایسا فریق موجود نہیں جس کے ذریعے ملکی معاملات پر آگے کی سمت کے حوالے سے کوئی اتفاق رائے پیدا ہو سکے۔ اس نفسانفسی کا نتیجہ یہ ہے کہ خبروں کے مطابق آئی ایم ایف کی کڑی شرطوں کی ایک بڑی وجہ سیاسی عدم استحکام ہے۔ کاروبار کرنے والے دہائی دے رہے ہیں مگر کوئی سننے والا نہیں ہے۔
ملک کے ذمہ دار بے خبری سے لے کر بے سمتی کے مختلف درجوں پر ہیں۔ عوام کے مسائل سے زیادہ سیاسی مسائل کی اہمیت ہے۔ اشیا کی قیمتوں سے زیادہ مخالفین کو دبانے پر زور ہے اور لاکھوں لوگوں کے خط غربت کے نیچے جانے سے زیادہ کوشش ہے کہ کسی طرح انتخابات کو آگے لے جایا جائے۔ اگر یہی سلسلہ جاری رہا تو عوام کے ذہن میں سیاسی اور فیصلہ کرنے والے اداروں کے بارے میں صرف بے حسی کا گمان ہی رہے گا۔