Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

انتخابات کی تاریخ کا اعلان، ’صدر نے آئینی اختیار کا استعمال نہیں کیا‘

صدر نے کہا کہ آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔ (فوٹو: اے پی پی)
پاکستان کے صدر عارف علوی نے پنجاب اور خیبر پختونخواہ کی صوبائی اسمبلیوں کے لیے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے۔ صدر نے یہ اعلان الیکشن ایکٹ 2017 کے سیکشن 57 ایک کے تحت کیا ہے جو صدر کو یہ اختیار دیتا ہے کہ صدر الیکشن کمیشن سے کہے کہ وہ انتخابات کے انعقاد کا انتظام کرے۔ 
اس سے قبل صدر مملکت نے ایک خط کے ذریعے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو خط لکھ کر انتخابات کی تاریخ طے کرنے کے لیے مشاورتی اجلاس میں شرکت کرنے کی دعوت دی تھی۔ الیکشن کمیشن نے اس کے جواب میں دو خطوط لکھے جس میں انھوں نے صدر پر واضح کیا کہ چونکہ انتخابات صوبائی اسمبلیوں کے ہیں اس لیے صدر کے پاس ان کی تاریخ طے کرنے کا کوئی اختیار نہیں ہے اس لیے وہ ایوان صدر میں ہونے والے اجلاس میں شرکت نہیں کرسکتے۔ 
صدر نے آج الیکشن کمیشن کو بھیجے گئے مراسلے میں کہا ہے کہ ’چونکہ کسی بھی عدالتی فورم کی جانب سے کوئی حکم امتناع نہیں، لہٰذا، سیکشن 57  ایک کے تحت صدر اختیار کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نہیں۔‘
صدر نے مزید کہا کہ آئین اور قانون 90 دن سے زائد کی تاخیر کی اجازت نہیں دیتا۔
ان کا کہنا تھا کہ ’پنجاب اور خیبرپختونخوا کے گورنر صوبائی اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 دن کے اندر اندر الیکشن کی تاریخ مقرر کرنے کی اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا نہیں کر رہے۔‘

صدر کے اقدام کی آئینی حیثیت کیا ہے؟ 

الیکشن کمیشن کی جانب سے صدر مملکت کی صدارت میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کے حوالے سے کسی مشاورتی عمل میں شامل ہونے کے بعد صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ کے اعلان کی آئینی حیثیت کے بارے میں آئینی ماہرین کا کہنا ہے کہ صدر نے آئینی اختیار کا استعمال نہیں کیا۔ 
آئینی ماہر اور سابق مشیر قانون بیرسٹر ظفراللہ خان نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’آئین پاکستان میں ہر ادارے کا کردار واضح ہے۔ صدر کا عہدہ ایک نمائشی عہدہ ہے اور اس کا کام صرف اور صرف ایڈوائس پر عمل کرنا ہوتا ہے۔ برطانیہ جیسے ملک میں بادشاہ یا ملکہ اپنی تقریر تک خود نہیں لکھ سکتے وہ بھی انھیں لکھ کر دی جاتی ہے جسے وہ پڑھتے ہیں۔ انڈیا میں بھی صدر ایگزیکٹو کی ایڈوائس کا پابند ہے۔‘

ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنا کام آئین، قانون اور اپنے مینڈیٹ کے مطابق خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

انھوں نے کہا کہ ’پاکستان کے آئین میں صدر کے بارے میں ایک باب ہے جس میں انتخابات کے حوالے سے صدر کا کوئی کردار موجود نہیں ہے۔ ایک باب الیکشن کمیشن کے بارے میں بھی ہے وہاں بھی صدر کے کسی کردار کا کوئی ذکر موجود نہیں ہے سوائے اس کے کہ وزیر اعظم کی جانب سے انھیں کوئی سمری بھیجی جائے۔ پاکستان میں انتظامی معاملات کا اختیار وزیراعظم اور کابینہ کے پاس ہے۔ صدر کے پاس کوئی انتظامی اختیار نہیں ہے۔‘
انھوں نے کہا ہے کہ ’صدر کا اقدام سیاسی اور آئین پاکستان کی صریحاً خلاف ورزی ہے۔ صدر صرف اس وقت انتخابات کا اعلان کرسکتے ہیں جب کابینہ کی منظوری کے بعد وزیراعظم اسمبلی تحلیل کرنے کی سمری انھیں بھیجیں گے وہ تب ہی انتخابات کی تاریخ کا اعلان کر سکتے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’انتخابات تو بالکل اپنے وقت کے مطابق ہی ہونے چاہیئں لیکن یہ ان لوگوں کو کرانے چاہیئں جن کا یہ مینڈیٹ ہے۔ جس طرح صدر نے الیکشن کمیشن کو خط لکھا تھا اگر میں چیف الیکشن کمشنر ہوتا تو میں ان کو توہین عدالت کا نوٹس جاری کرتا۔ یہ الگ بات ہے کہ صدر کو استثنیٰ حاصل ہے اور پارلیمنٹ کی صورت حال بھی ایسی ہے کہ صدر کا مواخذہ ممکن نہیں ورنہ صدر کا طرز عمل صدر پاکستان کے بجائے اس وقت ایک پارٹی کارکن کا ہے جو اس عہدے کی توہین کے مترادف ہے۔‘
دوسری جانب پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے آئینی ماہر اور سابق وزیر قانون بیرسٹر علی ظفر نے اردو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ ’آئین کے تحت پاکستان کے عوام کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات ہوں۔ جب دونوں اسمبلیاں تحلیل ہو چکی ہیں کہ تو میرے نکتہ نظر کے مطابق گورنر کو انتخابات کی تاریخ دے۔ اگر گورنر تاریخ نہیں دیتا تو یہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی ہے۔ لاہور ہائی کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کو یہی حکم دیا تھا۔ جس پر انھوں نے عمل نہیں کیا اور توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’جب گورنرز اور الیکشن کمیشن دونوں اپنی آئینی ذمہ داریاں ادا کرنے میں ناکام ہوئے تو 90 دن کی مدت گزر رہی ہے۔ ایسے میں آئین تو کچھ نہیں کہتا لیکن الیکشن ایکٹ 2017 کی شق 57 ایک صدر کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ اسمبلیوں کے عام انتخابات کی تاریخ دیں۔ الیکشن ایکٹ میں اسمبلیوں کی تعریف کی گئی ہے کہ وہ صوبائی اور قومی اسمبلیاں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’اس سے یہ تو ثابت ہوتا ہے کہ الیکشن ایکٹ صدر کو اختیار دیتا ہے۔ صدر نے اس معاملے پر الیکشن کمیشن سے مشاورت کرنی تھی لیکن الیکشن کمیشن نے انکار کیا ہے۔ اسی طرح گورنرز بھی اپنی آئینی ذمہ داریاں پوری نہیں کر رہے تو صدر مملکت کا انتخابات کی تاریخ دینا قانون طور پر درست عمل ہے۔‘

الیکشن کمیشن کے پاس کیا آپشنز ہیں؟ 

اس حوالے سے الیکشن کمیشن صدر مملکت کے نام لکھے اپنے خطوط میں واضح کر چکا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جائے گی جس میں گورنر پنجاب کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے سے انکار کے بعد ہائی کورٹ سے مزید ہدایات اور پہلے فیصلے کی تشریح کی درخواست کی جائے گی۔ 

بیرسٹر علی طفر کا کہنا ہے کہ آئین کے تحت پاکستان کے عوام کا یہ بنیادی حق ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے 90 روز کے اندر انتخابات ہوں۔ (فوٹو: اے ایف پی)

اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے معاملے کا جائزہ لینے کے لیے اہم اجلاس طلب کرلیا ہے جس میں صدر کی جانب سے انتخابات کی تاریخ دینے کے معاملے پر غور کیا جائے گا۔ 
ترجمان الیکشن کمیشن نے کہا ہے کہ الیکشن کمیشن اپنا کام آئین، قانون اور اپنے مینڈیٹ کے مطابق خوش اسلوبی سے انجام دے رہا ہے. الیکشن کمیشن کسی سے ڈکٹیشن نہیں لے رہا۔
کمیشن اپنی آئینی اور قانونی ذمہ داریوں کو مکمل غیر جانب دارانہ، بلا خوف و خطر اور آزادانہ طور پر انجا م دیتا ہے۔ الیکشن کمیشن غیر جانب داری اور شفافیت کے ساتھ صرف وہی امور سرانجام دیتا ہے جو آئین نے تفویض کیے ہیں۔
حکام کا کہنا ہے کہ ’الیکشن کمیشن اپنے اجلاس میں فوری طور پر لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کرے گا اور لاہور ہائی کورٹ کی جانب سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں ہی حتمی فیصلہ کیا جائے گا۔‘
اس معاملے پر اردو نیوز سے گفتگو میں آئینی ماہر اور سابق چیئرمین سینیٹ وسیم سجاد نے کہا کہ ’ اس معاملے کا فیصلہ  آخرکار عدالت میں ہی ہوگا۔ یہ معاملہ پہلے سے ہی عدالت کے سامنے زیر التوا ہے۔‘ 

شیئر: