Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

خیبرپختونخوا الیکشن: ’پولیس کی دستیاب نفری سکیورٹی کے لیے کم ہے‘

حکام کے مطابق ’صوبائی حکومت کو انتخابات کی سکیورٹی کے لیے 56 ہزار اہلکاروں کی نفری درکار ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)
خیبرپختونخوا اسمبلی کو تحلیل ہوئے ایک ماہ سے زائد گزرنے کے باوجود صوبائی گورنر کی جانب سے الیکشن کی تاریخ سامنے نہ آسکی۔
صوبے میں امن و امان کی صورت حال کا جائزہ لینے کے لیے منگل کو نگراں وزیراعلٰی اعظم خان کی زیرصدارت پشاور میں اجلاس منعقد ہوا۔
اجلاس میں چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس، سیکریٹری داخلہ اور دیگر اعلٰی حکام شریک تھے، اجلاس میں عام انتخابات کے تناظر میں صوبے کی مجموعی سکیورٹی صورت حال کا جائزہ لیا گیا۔
متعلقہ حکام کی جانب سے نگراں وزیراعلٰی کو سکیورٹی کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تفصیلی بریفنگ دی گئی جس میں بتایا گیا کہ ’پہلی مرتبہ صوبے کے ضم شدہ اور بندوبستی اضلاع میں عام انتخابات بیک وقت منعقد ہوں گے۔‘
وزیراعلٰی ہاؤس سے جاری کردہ بیان میں ’موجودہ صورت حال میں پولیس کی دستیاب نفری کو عام انتخابات کی سکیورٹی کے لیے ناکافی قرار دیا گیا۔‘ 
نگراں وزیراعلٰی کو بریفنگ میں بتایا گیا کہ ’صوبائی حکومت کو ضم شدہ اور بندوبستی اضلاع میں بیک وقت انتخابات کی سکیورٹی کے لیے 56 ہزار اہلکاروں کی نفری درکار ہے۔‘
’اس کے علاوہ انتخابی مہم کے دوران اہم سیاسی قائدین کی سکیورٹی کے لیے فرنٹیئر کانسٹیبلری کے 1500 اہلکاروں کی ضرورت پیش آئے گی۔‘
اجلاس میں متعلقہ اداروں نے سفارش کی کہ ’اگر درکار اضافی نفری فراہم کی جائے تو صوبائی حکومت عام انتخابات کے لیے سکیورٹی فراہم کرنے کے قابل ہوجائے گی۔‘

پی ٹی آئی کے سابق وزرا کے مطابق ’نگراں حکومت انتخابات سے بھاگ رہی ہے‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

صوبائی حکومت کا بیان ناقابل قبول ہے: تحریک انصاف
تحریک انصاف کے سابق صوبائی وزیر کامران بنگش نے اجلاس کی سفارشات کو مسترد کرتے ہوئے انہیں تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے موقف اپنایا کہ ’یہ حکومت انتخابات سے بھاگ رہی ہے اس لیے حیلے بہانے ڈھونڈ رہی ہے۔‘ 
’اس سے پہلے صوبے میں امن امان کے بدترین حالات تھے مگر پھر بھی الیکشن ہوئے اب تو حالات اتنے بھی ابتر نہیں ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’ہمارے پاس ڈیٹا موجود ہے، صوبے میں پولیس اہلکاروں کی کوئی کمی نہیں ہے، اچانک ان کو فورس میں کمی نظر آگئی ہے۔‘
کامران بنگش نے بتایا کہ ’آئین کے مطابق متعلقہ اداروں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کمیشن کے ساتھ تعاون کریں اور تمام سہولیات کی دستیابی یقینی بنائیں۔‘
سابق صوبائی وزیر شوکت یوسف زئی نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے اجلاس کی سفارشات کو سازش قرار دیا۔ انہوں نے کہا ’یہ سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے کیونکہ پی ڈی ایم حکومت الیکشن میں تاخیر چاہتی ہے۔‘

تجزیہ کاروں کے مطابق ’پی ڈی ایم کی حکومت صوبوں میں الیکشن نہیں ہونے دے گی‘ (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’نگراں کابینہ میں سارے پی ڈی ایم کے لوگ شامل ہیں، وہ کبھی نہیں چاہیں گے کہ الیکشن ہوں۔ ماضی میں ہم اس سے زیادہ سنگین حالات دیکھ چکے ہیں، آج تو حالات بہت بہتر ہیں۔‘ 
تجزیہ کار کیا کہتے ہیں؟
سینیئر صحافی فرزانہ علی نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’پی ڈی ایم کی حکومت صوبوں میں الیکشن نہیں ہونے دے گی کیونکہ وزیر داخلہ کے بیان سے صاف ظاہر ہے وہ دو صوبوں میں الگ الیکشن نہیں کرنا چاہتے، اسی طرح گورنر غلام علی نے بھی مخدوش امن و امان کی صورت حال کو وجہ قرار دیا ہے۔‘
’اس صوبے میں پولیس کی تعداد پہلے سے کم ہے اور یہ پولیس کم نفری کے ساتھ ماضی میں الیکشن پر ڈیوٹی کرتی آئی ہے۔ ہمیں پتا ہے کہ کیا صورت حال ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا کہ ’موجودہ صورت حال میں عام آدمی پی ڈی ایم کو ووٹ نہیں ڈالنا چاہتا جبکہ عمران خان مقبول ہوچکے ہیں، اسی لیے یہ جماعتیں اب الیکشن میں تاخیر کر رہی ہیں۔‘ 
ان کے مطابق ’الیکشن نہ کرنے کے دو عذر پیش کیے گئے ہیں، ایک معاشی اور دوسرا امن و امان کی صورت حال کا بتایا گیا ہے جو کہ کامیاب عذر ثابت ہوسکتا ہے۔ اجلاس کی سفارشات گورنر کو ارسال کی جائیں گی اور پھر عدالت کے سامنے پیش کی جائیں گی۔‘ 

شیئر: