Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

عمران خان کی عدالت میں پیشی سے زمان پارک میں پولیس آپریشن تک

دو دن کی بارش کے بعد سنیچر کے روز اسلام آباد کا موسم خشک تھا۔ ہلکی ہلکی دھوپ کے ساتھ تیز ہوا نے جہاں شہر اقتدار کے باسیوں کی چھٹی کا مزہ دوبالا کیا تھا وہیں عمران خان کی پیشی پر ان کے ساتھ اظہار یکجہتی کے لیے آنے والوں اور سکیورٹی اہکاروں کو بدلتے موسم کی حدت سے محفوظ رکھا۔
عمران خان کی آمد کا ممکنہ وقت اگرچہ دن 12 بجے کے بعد کا ہی تھا، لیکن تحریک انصاف کے کارکنان 10 بجے تک جوڈیشل کمپلیکس کے سامنے سری نگر ہائی وی کے جی الیون سگنل پر جمع ہونا شروع ہوگئے تھے۔
آنے والے کارکنان میں نواجوان، بچے، بوڑھے مرد و خواتین سب ہی موجود تھے۔ جو ٹولیوں میں آتے نعرے لگاتے اور وہاں موجود یوٹیوبرز کے ساتھ موبائل کیمروں پر اپنے اپنے جذبات کا اظہار کرتے تھے۔ بعض اوقات تو ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ہر گلی محلے کے لیڈر کے ساتھ دو چار یوٹیوبرز ویسے ہی کوریج کے لیے آئے ہوئے ہیں جیسے کسی قومی لیڈر کی کوریج کے لیے ٹی وی کیمرے آتے ہیں۔
اسلام آباد میں چونکہ دفعہ 144 نافذ تھی اس لیے پولیس بھی وقفے وقفے سے کارکنان کی ایک ایک کر کے گرفتاریاں کرتی رہی۔ عمران خان کی آمد سے قبل 30 کے قریب کارکن گرفتار کیے جا چکے تھے۔
عمران خان کی آمد میں تاخیر ہوئی تو صبح سے بند انٹرنیٹ سگنلز بحال ہوگئے جو 12 بجے سے 2 بجے تک بحال رہے۔ بعد ازاں سگنلز پھر بند کر دیے گئے۔ اس دوران کارکنان کی تعداد میں بھی آہستہ آہستہ اضافہ ہوتا رہا۔ کارکنان سری نگر ہائی وے پر ہی جمع رہے، تاہم عمران خان کی آمد سے دس منٹ پہلے تک ٹریفک دونوں اطراف رواں دواں رہی۔
پولیس نے جوڈیشل کمپلیکس سے کارکنان کو دور رکھنے کے لیے کمپلیکس کے چاروں اطراف کنٹینرز کی دیوار کھڑی کر رکھی تھی اور صرف ایک طرف سے راستہ رکھا گیا تھا جہاں سے عمران خان کی گاڑی کو گزارنا تھا۔ تحریک انصاف کی جانب سے جن رہنماؤں اور وکلا کی فہرست فراہم کی گئی تھی ان کو بھی اسی راستے سے جوڈیشل کمپلیکس تک جانے دیا گیا۔
عمران خان کا قافلہ جب اسلام آباد کے ٹول پلازہ پر رکا تو جو بات سب سے زیادہ محسوس کی گئی وہ یہی تھی کہ عمران خان نہ صرف مزید کارکنان کو جمع کر رہے ہیں بلکہ انٹرنیٹ سگلنز میں رہ کر زمان پارک کی صورت حال کا بھی جائزہ لے رہے ہیں۔ یہ بھی بار بار تذکرہ ہوتا رہا کہ عمران خان ہر ممکن کوشش کریں گے کہ وہ کسی صورت فرد جرم عائد ہونے سے بچ سکیں۔
دوسری جانب پولیس کی تیاری سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ لاہور میں ہونے والے سلوک کا بدلہ لینے کے لیے تیار کھڑی ہے۔ پولیس اہلکار بار بار شیل پھینکنے والی بندوقیں ٹیسٹ کر رہے تھے اور شیل کھول کھول کر جیبیں اور تھیلے بھر رہے تھے۔ اس کے علاوہ ربڑ کی گولیاں بھی پولیس اہلکاروں میں تقسیم کی جا رہی تھیں۔
یہ محسوس ہوتا تھا کہ جونہی عمران خان جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوں گے تو پولیس ورکرز کو منتشر کرنے کے بہانے اپنا بدلہ لینے کے لیے انھیں آنسو گیس کے شیل اورربڑ کی گولیاں خوب برسائے گی۔
پی ٹی آئی کے عام ورکرز جب پولیس کے تیور دیکھتے تو وہ ادھر ادھر ہو جاتے لیکن مختلف رہنماوں کے ساتھ آئے ڈنڈا بردار نوجوان کسی بھی صورت حال سے نمٹنے کے لیے پرعزم تھے۔

جس طرف کارکنان جاتے آنسو گیس کے شیل ان کے پیچھے پیچھے گرتے جاتے (فوٹو: اے ایف پی)

جونہی عمران خان کا قافلہ جی الیون سگنل، جہاں سے جوڈیشل کمپلیکس دو منٹ کی ڈرائیو پر ہے، پہنچا تو کارکنان نے عمران خان کی گاڑی کو گھیر لیا۔ پولیس نے بھی عمران خان کی گاڑی کو گھیرے میں لے کر کنٹینرز کے درمیان بنے راستے کی طرف لے جانا چاہا تو پولیس اور کارکنان کے درمیان ہاتھا پائی شروع ہوگئی۔
اس دوران پولیس نے اچانک شیلنگ شروع کر دی اور کارکنان جو پہلے ایک جگہ پر جمع تھے اب دور دور تک سری نگر ہائی وے پر جمع ہوگئے۔ جس طرف کارکنان جاتے آنسو گیس کے شیل ان کے پیچھے پیچھے گرتے جاتے۔ ہوا کا رخ پولیس کی جانب ہونے کی وجہ سے آنسو گیس کی زد میں کارکن کم جبکہ پولیس اور میڈیا ورکرز زیادہ تعداد میں آئے۔
اس وجہ سے پی ٹی آئی ورکرز کو سنبھلنے کا موقع بھی مل گیا اور وہ شیل اٹھا اٹھا کر واپس پولیس اہلکاروں کی طرف پھینکتے رہے۔ صرف یہی نہیں بلکہ انھوں نے سڑک کے اطراف سے پتھر اٹھا کر پولیس اہلکاروں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ اس وجہ سے پولیس اہلکار سری نگر ہائی وے سے جوڈیشل کمپلیکس کے سامنے سروس روڈ پر جانے پر مجبور ہوئے۔
اچانک شیلنگ سے غصے میں آنے والے کارکنان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو انھوں نے پولیس کی گاڑیوں کو نشانہ بنانا شروع کر دیا۔ بپھرے کارکنان نے فرخ  حبیب کی جانب سے لاؤڈ سپیکر پر بار بار منع کرنے کے باوجود پہلے ایک پولیس وین کو ڈنڈے مار مار کر توڑا تو پھر ایک بس اور ڈبل کیبن گاڑی پر پتھراؤ کیا۔
اس تصادم کی وجہ سے سری نگر ہائی وے پر سفر کرنے والے عام مسافر، موٹر وے کی طرف جانے والی مسافر گاڑیاں، بسیں اور مقامی افراد بھی شدید متاثر ہوئے۔
پتھراؤ سے جہاں پولیس اہلکار زخمی ہوئے وہیں بڑی تعداد میں میڈیا ورکرز آنسو گیس اور پتھراؤ کا نشانہ بنے۔ پولیس کی جانب سے یہ الزام بھی عائد کیا گیا کہ کارکنان کے پاس شیل بھی موجود ہیں جو وہ پولیس پر فائر کر رہے ہیں۔
یہ سلسلہ یہیں پر نہیں رکا بلکہ تحریک انصاف کے رہنماؤں نے اپنے کارکنان کو دوبارہ جمع کیا۔ کارکنان نے پوری قوت سے پولیس پر حملہ کیا اور انھیں پیچھے دھکیلتے ہوئے جوڈیشل کملیکس کے دروازے تک پہنچ گئے۔ کارکنان نے جوڈیشل کمپلیکس کے احاطے میں موجود پولیس اہلکاروں پر پتھراؤ کیا جس کے جواب میں جوڈیشل کمپلیکس کے تین اطراف میں موجود کارکنان پر شیلنگ کی گئی جس کے اثرات کمرہ عدالت تک محسوس کیے گئے۔

پی ٹی آئی کے کارکنوں نے آنسو گیس شیلنگ کے بعد پولیس کی گاڑی توڑ دی (فوٹو: اے ایف پی)

پولیس نے عمران خان کی گاڑی کو جوڈیشل کمپلیکس میں داخلے کے لیے دروازے کے سامنے موجود کارکنان پر لاٹھی چارج کیا تو شبلی فراز اور مراد سعید سمیت عمران خان کی ذاتی سکیورٹی کے افراد بھی اس کی زد میں آئے۔
عمران خان کی گاڑی جوڈیشل کمپلیکس میں داخل ہوئی تو لگا کہ اب عمران خان عدالت میں پیش ہو جائیں گے، لیکن دوسری طرف موجود کارکنان نے پتھراؤ شروع کر دیا۔ شبلی فراز جو اس وقت پولیس حراست میں تھے وہ بھی اس پتھراؤ کی زد میں آئے، لیکن پولیس اہلکاروں نے اپنی ڈھال سے ان کی طرف آنے والے پتھر روکے۔ عمران خان کی گاڑی اس پتھراؤ کے باعث جوڈیشل کمیشن کے احاطے سے ریورس ہو گئی۔
لاٹھی چارج کے بعد کارکنان مزید غصے میں آگئے تو انھوں نے پولیس اہلکاروں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے انھیں پسپا ہونے پر مجبور کر دیا۔ کارکنان نے سابق وزیراعظم کے پروٹوکول کے لیے آنے والی جیمرز والی قیمتی گاڑی سمیت متعدد گاڑیوں کو توڑ ڈالا۔ اسی طرح کارکنان نے ایک نجی گاڑی الٹا دی، ایک پولیس وین اور 25 سے زائد موٹرسائیکلوں کوآگ لگا دی۔
عمران خان حاضری لگانے کے بعد واپس لاہور روانہ ہوئے تو پولیس نے کارکنان کو منتشر کرنے کے لیے ایک بار پھر شیلنگ کا سلسلہ شروع کر دیا۔ کافی دیر کی ہنگامہ آرائی کے بعد پولیس سری نگر ہائی وے اور اردگرد کا علاقہ کلیئر کرانے میں کامیاب ہوئی۔
پورے دن کی صورت حال کا اگر چند جملوں میں تجزیہ کیا جائے تو پولیس انتظامیہ کی جانب سے موسم، ہوا اور کارکنان کی تعداد کا ادراک کرنے میں ناکام رہی۔ اسی طرح عمران خان کے جوڈیشل کمپلیکس میں جانے سے پہلے شیلنگ کا حکم دینے کا فیصلہ بھی پولیس کے لیے خودکشی کے مترادف ثابت ہوا اور پورے سین میں تحریک انصاف کے کارکن پولیس پر حاوی رہے۔
اس صورت حال کا فائدہ عمران خان کو ہوا جو نہ صرف صبح کی اطلاعات کے مطابق گرفتاری سے بچ نکلے بلکہ توہین عدالت لگوائے بغیر فرد جرم سے بچ گئے۔

زمان پارک میں پولیس ایکشن

لاہور سے اردو نیوز کے نامہ نگار رائے شاہنواز کے مطابق اس سے قبل عمران خان اسلام آباد پیشی کے لیے جب لاہور سے اپنے گھر زمان پارک سے نکلے تو بظاہر سب کچھ نارمل تھا۔

لاہور میں پولیس زمان پارک کا گیٹ توڑ کر اندر داخل ہوئی (فوٹو: اے ایف پی)

صبح آٹھ بجے عمران خان کی گاڑی زمان پارک سے نکلی تو ان کے ساتھ گاڑیوں کا ایک کاروان تھا۔ جیسے ہی پی ٹی آئی چیئرمین کا قافلہ موٹروے پر لاہور کی حدود سے نکلا تو اچانک زمان پارک کے حالات بدلنا شروع ہو گئے۔ پولیس نے کنٹینر لگا کر تمام راستوں کی ناکہ بندی کردی۔ لیکن یہ ناکہ بندی عام نہیں تھی۔
میں نے 8 مارچ کی ریلی اور عمران خان کے وارنٹ کی تعمیل کے موقع پر زمان پارک میں پولیس کے راستے بند کرنے کے اقدامات کو دیکھا تھا، لیکن سینچر کے روز کی گئی ناکہ بندی غیرمعمولی تھی۔
کینال روڑ مسلم ٹاؤن موڑ سے کنٹینر لگا کر بند کر دیا تھا، دھرم پورہ، شملہ پہاڑی، گورنر ہاؤس، کلب چوک اور زمان پارک کی عقبی سڑک کی تمام گلیاں سب کچھ سیل کر دیا گیا تھا۔
پولیس کے تیور بھی بہت بدلے ہوئے تھے۔ مال روڑ سے پولیس کی بھاری نفری نے صف بندی میں زمان پارک کی طرف پیدل مارچ شروع کر دیا۔ عمران خان کے گھر کے باہر کھڑے کارکنوں کو اس وقت پتا چلا جب پولیس ایچی سن کالج کراس کر چکی تھی۔
کارکنوں نے نعرے بازی شروع کی تو پولیس نے دھاوا بول دیا۔ چند ایک کارکنوں نے پتھر اور ڈنڈے چلانے کی کوشش کی۔ پولیس کے مطابق چند ایک پیٹرول بم بھی پھینکے گئے۔ پولیس نے البتہ دیکھتے ہی دیکھتے کارکنوں کو قابو کر لیا۔ اس سے پہلے آنسو گیس کے شیل بھی پھینکے گئے۔ پولیس کا یہ آپریشن اس لیے بھی پہلے سے مختلف تھا کہ اس بار ضلعی حکومت کا اینٹی انکروچمنٹ سیل اپنے بلڈوزرز کے ساتھ پولیس کے ہمراہ تھا۔
کارکنوں کو حراست میں لینے کے بعد اینٹی انکروچمنٹ سیل نے زمان پارک کے باہر لگی تمام تجاوزات بشمول کیمپس، مورچے اور حفاظتی دیواریں سب کچھ مسمار کرنا شروع کر دیا۔

پولیس نے رہائشی حصے کے علاوہ عمران خان کے گھر کے مختلف حصوں کی تلاشی لی (فوٹو: اے ایف پی)

صرف وہی کارکن بچے تھے جو عمران خان کے گھر کے اندر تھے۔ پولیس جب عمران خان کے گھر کے دروازے پر پہنچی تو ان کارکنوں نے گیٹ بند کر دیا۔ پولیس نے کرین کی مدد سے گیٹ توڑا اور اندر داخل ہو گئے۔
پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے پاس عدالتی وارنٹ تھے جبکہ پولیس یہ بھی دعویٰ کر رہی ہے کہ ان پر اندر سے گولی بھی چلائی گئی۔
پولیس نے رہائشی حصے کے علاوہ عمران خان کے گھر کے مختلف حصوں کی تلاشی لی اور دعویٰ کیا اندر سے بڑی مقدار میں اسلحہ برآمد ہوا ہے۔
پولیس نے کافی تعداد میں اشیا قبضے میں لیں۔ 60 کارکنوں کو حراست میں لیا جس کے بعد عمران خان کے گھر کے باہر ختم کیے گئے کیمپس کا ملبہ صفائی کے عملے سے اٹھوا دیا۔
عمران خان کے گھر کے گیٹ کی جگہ پر پردے کے لیے ایک چادر لٹکا دی گئی۔

شیئر: