مملکت کی پہلی رصد گاہ جہاں کپڑا لہرا کر چاند دیکھنے کی اطلاع دی جاتی
مملکت میں جبل ابو قبیس پر پہلی رصد گاہ بنائی گئی تھی (فوٹو العربیہ نیٹ)
سعودی ریاست میں چاند دیکھنے کے لیے پہلی رصد گاہ 1948 میں مکہ مکرمہ میں قائم کی گئی تھی۔
العربیہ نیٹ کے مطابق بانی مملکت شاہ عبدالعزیزکے دور میں جبل ابو قبیس پر پہلی رصد گاہ بنائی گئی تھی۔ شاہ سعود نے آلات فراہم کیے تھے۔ اس کا تصور ماہر فلکیات شیخ محمد عبدالرزاق حمزہ کا تھا۔
چند برس قبل پرانی رصد گاہ جبل ابو قبیس سے مکہ مکرمہ کلاک ٹاورمیں منتقل کر دی گئی۔
تاریخی کتابوں میں ہے کہ ذرائع ابلاغ کا دور شروع ہونے سے قبل مکہ مکرمہ کے قاضی یا ان کے نائب اور بعض افراد جبل ابو قبیس پر واقع رصد گاہ جایا کرتے تھے۔ وہاں وہ رمضان کا چاند دیکھنے کی کوشش کرتے۔
چاند نظر آجاتا تو ان میں سے کوئی ایک اوپر جاتا۔ اس کے ہاتھ میں ایک کپڑا ہوتا جسے لہرا کر وہ چاند نظر آجانے کی اطلاع دیا کرتا تھا۔ جس کے بعد مکہ مکرمہ کے پہاڑی قلعوں میں موجود افراد اسے دیکھ کر توپ کے گولے داغتے۔ یہ اس بات کی علامت ہوتے تھے کہ رمضان کا چاند نظر آگیا ہے۔ ایسی ہی کارروائی عید الفطر کا چاند نظر آنے پر ہوتی تھی۔
حالیہ برسوں کے دوران سعودی عرب میں مختلف مقامات پر رصدگاہیں قائم کر دی گئی ہیں۔ ان میں نمایاں ترین سدیر، تمیر اور مکہ کی رصدگاہیں ہیں۔
ان کے علاوہ ریاض، مدینہ منورہ، قصیم، ظہران، شقرا، حائل اور تبوک میں بھی رصدگاہیں قائم کر دی گئی ہیں البتہ مملکت کی قدیم ترین رصدگاہیں تین ہیں۔
سعودی وزارت انصاف نے رویت ہلال پر قانونی کارروائی کے لیے الیکٹرانک سسٹم قائم کر دیا ہے جو رصدگاہوں اور عدالتوں کو ایک دوسرے سے مربوط کیے ہوئے ہے۔
واٹس ایپ پر سعودی عرب کی خبروں کے لیے ”اردو نیوز“ گروپ جوائن کریں