Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

’تعلیم کے لیے پاکستان آئے لیکن داخلہ نہیں ملا‘، افغان طالبہ کی کہانی

اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد لاکھوں افغان شہریوں نے ملک چھوڑا۔ ان میں سے بہت سے افراد نے پاکستان کے شہر کوئٹہ کا بھی رخ کیا جن میں محمد آصف شکوری اور ان کا خاندان بھی شامل تھا۔
زیادہ تر افغان پناہ گزینوں کے برعکس محمد آصف کے پاس وطن چھوڑنے کی صرف ایک وجہ تھی: بچیوں کی تعلیم۔
چھ بیٹیوں اور ایک بیٹے کے والد محمد آصف نے اُردو نیوز کو بتایا کہ جب طالبان نے لڑکیوں کے کالج اور یونیورسٹیاں بند کر دیں اور انہیں احساس ہوا کہ اب ان کی بیٹیوں کے لیے اپنے ملک میں تعلیم حاصل کرنا ممکن نہیں رہا تو انہوں نے افغانستان چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
آصف شکوری اپنا گھر بار چھوڑ کر افغانستان کے شہر کندھار سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے دار الحکومت کوئٹہ منتقل ہو گئے اور یہاں بطور درزی کام شروع کر دیا تاکہ نو افراد پر مشتمل اپنے خاندان کی کفالت اور بچوں کی تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع کرسکیں۔
آصف شکوری کہتے ہیں کہ اپنا آبائی وطن چھوڑنا اور کسی دوسرے ملک میں دوبارہ زندگی شروع کرنا آسان نہیں لیکن اس کے علاوہ کوئی دوسرا راستہ بھی نہیں تھا۔ ’میرے پاکستان آنے کی وجہ صرف اور صرف اپنی بیٹیوں کی تعلیم ہے۔ میری چار بیٹیاں اور ایک بیٹا سکول میں پڑھ رہے تھے جبکہ دو بڑی بیٹیاں یونیورسٹی جا رہی تھیں۔ طالبان نے برسر اقتدار آتے ہی لڑکیوں کے ہائی سکول اور یونیورسٹی بند کر دی اور ان کی تعلیم پر بھی پابندی لگا دی۔‘
محمد آصف نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور معاشرے میں اچھا مقام دلانا چاہتے تھے۔ ’مجھے اپنا خواب ادھورا اور اپنی بیٹیوں کا مستقبل تاریک نظر آنے لگا تو ملک چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔ ہم سب کچھ چھوڑ کر ایک جوڑے کپڑے میں سپین بولدک چمن سرحد پہنچے جہاں بڑی مشکلوں کے بعد ہمیں سرحد کو پار کرنے دیا گیا۔‘

محمد آصف نے بتایا کہ وہ اپنے بچوں کو اعلیٰ تعلیم اور معاشرے میں اچھا مقام دلانا چاہتے تھے۔ (فوٹو: اردو نیوز)

انہوں نے بتایا کہ ’کوئٹہ آنے کے بعد دو سے تین ماہ تک وہ اپنے ایک رشتہ دار کے گھر رہا کیونکہ ان کے پاس گھر کے کرایہ تک کی رقم نہیں تھی۔ میں نے قرض لے کر ایک کرایہ کا گھر ڈھونڈا اور کپڑوں کی سلائی مشین خرید کرکام شروع کر دیا۔‘
آصف شکوری اب مطمئن ہیں کہ مڈل کلاسوں میں پڑھنے والے ان کے پانچ بچوں نے دوبارہ تعلیم شروع کردی ہے۔ وہ کوئٹہ میں افغانوں کے لیے مختص احمد شاہ بابا سکول میں پڑھتے ہیں تاہم انہیں اس بات کا بھی دُکھ ہے کہ ان کی دو بڑی بیٹیوں کی ادھوری تعلیم کا سلسلہ دوبارہ شروع نہیں ہو سکا۔
آصف شکوری کی دوسری بیٹی حنیفہ کندھار یونیورسٹی میں انگریزی ادب کی طالبہ تھیں اور انہوں نے آٹھ میں سے چار سمیسٹرز پڑھ  لیے تھے لیکن طالبان کے آنے کے بعد یونیورسٹی بند ہونے کی وجہ سے ان کی تعلیم ادھوری رہ گئی۔
حنیفہ آصف نے اردو نیوز کو بتایا کہ ’ہم دو بڑی بہنیں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں کیونکہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے پاکستانی شناختی کارڈ لازمی ہے۔ ہمارے پاس اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کا دیا ہوا پناہ گزین کارڈ ہے ہم وہ لے کر  بلوچستان یونیورسٹی گئے لیکن انہوں نے کہا کہ اس کارڈ پر داخلہ نہیں مل سکتا۔‘
آصف شکوری کی کی بڑی بیٹی آصفہ کندھار میں خواتین کے لیے ایک ریڈیو پروگرام بھی کرتی تھیں۔ آصفہ شکوری کہتی ہیں کہ ’میں 2018 سے میرمن ریڈیو میں کام کر رہی تھی، میں صحافی بننا چاہتی تھیں لیکن طالبان آگئے تو ہم گھر بیٹھ گئے۔‘
 آصفہ اور حنفیہ دونوں بہنیں کندھار کی لڑکیوں کی صوبائی باسکٹ بال ٹیم کی کھلاڑی رہی ہیں اور وہ کئی بین الصوبائی مقابلوں میں حصہ لے کر بہترین کھڑی کے انعامات جیت چکی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ اپنی تعلیم مکمل کرنے کے ساتھ ساتھ باسکٹ بال میں مزید آگے بڑھ کر اپنے ملک کا نا م روشن کرنا چاہتی تھیں۔
حنیفہ نے بتایا کہ ’پاکستان آکر بھی یونیورسٹی میں داخلہ نہ ملنے پر ہمار ایک سال ضائع ہوگیا۔ لیکن چھوٹی بہنوں کی تعلیم ہمیں امید دیتی ہے کہ ایک دن ہم بھی یونیورسٹی پہنچ کر اپنا خواب پورا کرلیں گے۔‘

حنیفہ آصف نےبتایا کہ ’ہم دو بڑی بہنیں اپنی تعلیم جاری نہیں رکھ سکیں کیونکہ یونیورسٹی میں داخلے کے لیے پاکستانی شناختی کارڈ لازمی ہے‘ (فوٹو: اردو نیوز) 

انہوں نے کہا کہ ’ہماری طالبان حکومت سے درخواست ہے کہ وہ افغانستان میں لڑکیوں پر تعلیم کے دروازے مزید بند نہ کریں اور انہیں پڑھنے دیں تاکہ ہمارا ملک ترقی کرسکیں۔‘
دونوں بڑی بہنیں کندھار میں ویکسین مہم میں کام کرکے اپنے والد کا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ یہاں بھی وہ اور ان کی بڑی بہن ایک پرائیوٹ اکیڈمی میں پڑھا کر خاندان کی کفالت کرنے میں والد کی مدد کر رہی ہیں۔
محمد آصف شکوری کے مطابق گھر کا کرایہ 16 ہزار روپے ہے پانچ سے چھ ہزار روپے بجلی اور گیس کی مد میں دینا پڑتے ہیں۔ ’اتنی مہنگائی میں درزی کے کام سے گھر اور بچوں کی پڑھائی کے اخراجات پورے کرنا مشکل ہیں لیکن اس مشکل میں بھی بیٹیاں ان کا ساتھ دے رہی ہیں۔‘
مارچ 2023 میں افغانستان میں یونیورسٹیاں موسم سرما کی تعطیلات کے بعد دوبارہ کھل گئی ہیں لیکن صرف مرد طالب علموں کے لیے۔ افغانستان کی نئی حکومت کو خواتین کی تعلیم پر پابندی کی وجہ سے عالمی سطح پر مخالفت کا سامنا ہے۔
محمد آصف کہتے ہیں کہ ان کے لیے بچوں کی تعلیم سب سے اہم ہے اوراس کے لیے وہ ہر قسم کی مشکلات اٹھانے کو تیار ہیں۔ ’ہمیں افغانستان میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین، لیڈی ڈاکٹراور ٹیچرکی ضرورت ہے۔ میں دن رات دعا کرتا ہوں کہ طالبان لڑکیوں کی تعلیم کی اجازت دے دیں۔‘

شیئر: