Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پاکستان میں ڈنکی کے خلاف کارروائی، جعلی ویزوں اور پاسپورٹ کے کاروبار میں اضافہ

انسانی سمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس نئے طریقے اختیار کرنے لگے ہیں (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان میں غیر قانونی طور پر بیرونِ ملک جانے کا رجحان کوئی نیا نہیں ہے۔ ہر سال ہزاروں نوجوان بہتر مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے انسانی سمگلروں کے جھانسے میں آ کر غیر قانونی راستوں کے ذریعے یورپ اور دیگر ترقی یافتہ ممالک جانے کی کوشش کرتے ہیں۔
یہ رجحان 1990 کی دہائی سے جاری ہے، مگر گذشتہ چند برسوں کے دوران اس میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے۔
حالیہ کشتی حادثات کے بعد حکومتِ پاکستان اور یورپی ممالک کی جانب سے غیر قانونی تارکینِ وطن کے خلاف بڑے پیمانے پر کارروائیوں کا آغاز ہوا تو انسانی سمگلنگ میں ملوث نیٹ ورکس نئے طریقے اختیار کرنے لگے اور اب جعلی ویزوں اور پاسپورٹس کے استعمال میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
گذشتہ ایک ہفتے میں ایف آئی اے نے مختلف شہروں اور ایئرپورٹس پر بڑے پیمانے پر کارروائیاں کی ہیں، جن میں مجموعی طور پر 22 افراد کو گرفتار کیا گیا۔ یہ گرفتاریاں لاہور، سیالکوٹ، کراچی اور گوجرانوالہ سمیت کئی شہروں میں کی گئیں، جہاں انسانی سمگلنگ کے نیٹ ورکس کام کر رہے تھے۔
ایف آئی اے کے مطابق ڈنکی کے ذریعے غیر قانونی سفر کے راستے بند ہونے کے بعد جعلی ویزے اور پاسپورٹ بنانے والے گروہ دوبارہ متحرک ہو گئے ہیں۔
ماضی میں یہ گینگ بڑے پیمانے پر سرگرم تھے، مگر جب ڈنکی کے ذریعے سفر کا رجحان بڑھا تو ان کا کاروبار متاثر ہوا تھا۔ اب چوںکہ بیرونِ ملک جانے کے غیرقانونی راستے قریباً بند ہو چکے ہیں تو جعلی پاسپورٹس اور ویزے بنانے والوں کی چاندی ہو گئی ہے۔ تاہم جدید ٹیکنالوجی اور سفری دستاویزات میں نئے سکیورٹی فیچرز شامل ہونے کے باعث اس دھندے کا زیادہ عرصے تک چلنا مشکل ہو رہا ہے۔
جعلی ویزوں اور سفری دستاویزات کا کاروبار اب صرف چند شہروں تک محدود نہیں رہا بلکہ ملک بھر میں پھیل چکا ہے۔
لاہور، کراچی، اسلام آباد، گوجرانوالہ، سیالکوٹ اور دیگر بڑے شہروں میں  ایسے بیسیوں ایجنٹ سرگرم ہیں جو بے روزگار نوجوانوں کو بیرونِ ملک ملازمتوں کے جھوٹے خواب دکھا کر ان سے لاکھوں روپے بٹور لیتے ہیں۔
کچھ ایجنٹ مسافروں کو یورپ کے بجائے افریقی یا ایشیائی ممالک کے جعلی ویزے دے کر روانہ کر دیتے ہیں، جہاں وہ پھنس کر رہ جاتے ہیں اور واپس آنے کا بھی کوئی راستہ نہیں بچتا۔

ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جہاں مسافروں کو جعلی سفری دستاویزات کے ساتھ ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر لیا گیا (فوٹو: اے ایف پی)

کچھ ایسے کیسز بھی سامنے آئے ہیں جہاں مسافروں کو جعلی سفری دستاویزات کے ساتھ ایئرپورٹ پر ہی گرفتار کر لیا گیا، اور بعد میں انہیں بلیک لسٹ کر دیا گیا، جس کے باعث وہ مستقبل میں قانونی طریقے سے بھی بیرونِ ملک جانے کے اہل نہیں رہے۔
ترجمان ایف آئی اے کے مطابق سیالکوٹ ایئرپورٹ پر چار مسافر جعلی جرمن پاسپورٹس اور شینجن ویزوں پر بیرونِ ملک جانے کی کوشش میں گرفتار ہوئے، جو فلائٹ ایف زیڈ 338 کے ذریعے باکو جانے کی کوشش کر رہے تھے۔ ملزموں سے آٹھ جعلی جرمن پاسپورٹ اور شینجن ویزے برآمد ہوئے، جبکہ ایک اور مسافر سے پانچ جعلی کینیڈین ویزا سٹیکرز بھی ملے۔
ترجمان کے مطابق لاہور ایئرپورٹ پر ایک اور کارروائی کے دوران ایک شخص پکڑا گیا جس کے سامان سے اٹلی کے تین، فرانس کے دو جعلی پاسپورٹ اور متعدد جعلی شینجن ویزے برآمد ہوئے۔ یہ شخص جعلی دستاویزات یو اے ای میں مقیم اپنے ساتھیوں کو پہنچانے جا رہا تھا تاکہ وہ بعد میں یورپ جانے کی کوشش کریں۔
ترجمان نے کہا کہ گوجرانوالہ میں انسانی اسمگلنگ میں ملوث ایک نیٹ ورک کا پردہ فاش کرتے ہوئے چار ملزموں کو حراست میں لیا گیا ہے جو شہریوں کو یورپ، دبئی، امریکہ اور کینیڈا بھجوانے کے نام پر مجموعی طور پر ایک کروڑ چالیس لاکھ روپے ہتھیا چکے تھے۔
ان ملزموں کا طریقہ واردات یہ تھا کہ وہ شہریوں کو لیبیا کے راستے کشتیوں میں یورپ بھجوانے کی کوشش کر رہے تھے، مگر زیادہ تر افراد نے خطرناک سمندری سفر سے انکار کر دیا اور واپس آ گئے۔ اب انہیں جعلی ویزوں کے ذریعے بیرون ملک بھجوانے کی کوشش کی جا رہی تھی۔
علاوہ ازیں کراچی ایئرپورٹ پر ایک اور مسافر کو جعلی ویزوں کے ساتھ ملاوی جانے کی کوشش میں پکڑا گیا، جس کے پاسپورٹ پر انڈونیشیا اور سینیگال کے جعلی ویزا سٹیکرز موجود تھے۔

وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے تمام ایئرپورٹس پر امیگریشن چیکنگ سخت کرنے کی ہدایت کی ہے (فوٹو: وزارت داخلہ)

ایف آئی اے کی حالیہ کارروائیوں کے بعد حکومت نے انسانی سمگلنگ کے خلاف سخت اقدامات کرنے کا اعلان کیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی نے تمام ایئرپورٹس پر امیگریشن چیکنگ سخت کرنے کی ہدایت کی ہے جب کہ ایف آئی اے حکام کا کہنا ہے کہ جعلی سفری دستاویزات کو انتہائی باریک بینی سے چیک کیا جا رہا ہے۔
ایف آئی اے نے عوام کو بھی خبردار کیا ہے کہ وہ ویزے کے حصول کے لیے صرف متعلقہ ملک کے سفارت خانے یا منظور شدہ ویزا سینٹر سے رجوع کریں اور کسی بھی ایجنٹ کے جھانسے میں نہ آئیں۔
گذشتہ ایک ہفتے میں ہونے والی بیسیوں گرفتاریوں سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ جعلی ویزوں اور سفری دستاویزات کا کاروبار ایک منظم نیٹ ورک کے تحت چلایا جا رہا ہے۔ ایف آئی اے کی سخت کارروائیوں کے باوجود یہ دھندا رکنے کا نام نہیں لے رہا، کیوںکہ غیر قانونی طریقوں سے بیرون ملک جانے کے خواہش مند افراد مسلسل ان ایجنٹوں کے جھانسے میں آ رہے ہیں۔
اردو نیوز کو معلوم ہوا ہے کہ پاکستان میں جعلی پاسپورٹس اور ویزوں کا کاروبار ایک منظم نیٹ ورک کے تحت چلایا جا رہا ہے۔
ایک ایجنٹ نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ یہ نیٹ ورک مختلف مراحل اور کرداروں پر مشتمل ہوتا ہے اور عام طور پر تین سطحوں پر کام کرتا ہے: مقامی ایجنٹ، جعلسازی کے ماہرین اور بین الاقوامی شراکت دار۔ مقامی ایجنٹ وہ افراد ہوتے ہیں جو بے روزگار نوجوانوں اور بہتر مستقبل کے خواہش مند شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ یہ ایجنٹ عام طور پر سوشل میڈیا، ایڈورٹائزنگ ویب سائٹس یا زبانی تشہیر کے ذریعے اپنے گاہکوں کو پھنساتے ہیں۔

ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ جعلساز جدید پرنٹنگ اور ڈیزائننگ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں (فائل فوٹو: ایف آئی اے)

یہ نیٹ ورک بعض اوقات حکومتی اداروں میں موجود بدعنوان عناصر کی مدد سے بھی کام کرتے ہیں۔ ایجنٹوں کے مطابق نادرا اور پاسپورٹ آفس کے کچھ اہلکار بھاری رشوت کے عوض جعلی شناختی کارڈ یا پاسپورٹ جاری کرنے میں ملوث پائے گئے ہیں۔ اس طرح جعلساز گاہک کو ایسا پاکستانی یا غیر ملکی پاسپورٹ بنا کر دیتے ہیں جس پر قانونی طور پر سفری اجازت حاصل کرنا آسان ہو۔
ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ یہ جعلساز جدید پرنٹنگ اور ڈیزائننگ ٹیکنالوجی استعمال کرتے ہیں تاکہ ان کی تیار کردہ دستاویزات اصلی نظر آئیں۔ بعض اوقات یہ گروہ مستند سفری دستاویزات میں ردوبدل کرتے ہیں، جیسے کہ ویزا سٹیکرز پر جعلی مہریں لگانا، تاریخیں تبدیل کرنا یا جعلی امیگریشن کلیئرنس مہیا کرنا۔
ترجمان ایف آئی اے کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان ایسے نیٹ ورکس کو جڑ سے ختم کرنے کے لیے سرگرم ہے لیکن جب تک عوام خود اس دھوکہ دہی کے خلاف شعور نہیں حاصل کرے گی، تب تک یہ دھندا چلتا رہے گا۔ پاکستانی شہریوں کو چاہیے کہ وہ بیرون ملک جانے کے لیے قانونی راستے اختیار کریں اور کسی بھی ایجنٹ یا غیر قانونی ذریعے سے ویزا حاصل کرنے کی کوشش نہ کریں، کیوں کہ اس کا نتیجہ بسا اوقات جان لیوا بھی ہو سکتا ہے۔

 

شیئر: