انسان کو 2عناصر سے اس لئے پیدا کیا گیا کہ اس کا تعلق مادی دنیا سے بھی ہوتو اور وہ عالم ِ روحانی سے بھی وابستہ رہے
- - - - -- - - - -
ڈاکٹر یوسف القرضاوی
- - - - - - - - - -
اگر ہم انسان کے مادئہ تخلیق اور اجزائے ترکیبی کا جائزہ لیں تو معلوم ہوگاکہ ربِ کائنات نے اس کی تخلیق میں2مادے استعمال کئے ہیں۔ایک کاتعلق خاکی سے ہے تودوسرے کا مقدس اورپاکیزہ روح سے۔ ان2 عناصر سے اسے عدم سے وجود میں لایا گیا جیسا کے بارئی تعالیٰ نے ابو البشر حضرت آدم ؑکی آفرینش کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے: جب تمہارے رب نے ملائکہ سے کہا کہ میں مٹی سے انسان پیدا کرنے والا ہوں تو جب میں اسے مکمل کرلوں اور اس میں اپنی روح پھونک دوں تو تم سب اس کے لئے سجدے میں گر پڑنا۔(ص72،73) چنانچہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم ؑکا پتلہ تیار کیا اور اس میں اپنی روح پھونکی تو فرشتوں کو ان کے سامنے سربسجود ہونے کا حکم دیا ۔ تخلیق کے فوراً بعد انہیں جو عزت بخشی گئی اور ملائکہ کو ان کے سامنے سجدہ ریز ہونے کا حکم دیا گیاتو وہ مادہ خاکی سے پیدا کرنے کی وجہ سے نہیں بلکہ مقدس و پاکیزہ روح کے ادب واحترام میں تھا۔ انسان کومادہ خاکی اور مادہ روح سے پیدا کرنے کا مقصد یہ ہے کہ بیک وقت اس کے اند ر دونوں صفات موجود ہوں۔ ایک طرف اس کا تعلق مادی دنیا سے ہوتو دوسری جانب وہ عالم ِ روحانی سے بھی وابستہ ہو۔
وہ زمین پر چلتا، پھرتا، کھاتا پیتا اور اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں سے لطف اندوز ہورہاہوتودوسری طرف آسمان سے نازل ہونے والی وحی الٰہی اور معرفتِ ربانی سے بھی واقف ہواور اس کا قلب و دماغ بلکہ پورا وجود فیضانِ ربانی سے سرشار ہو۔وہ دنیا کے جھمیلوں میں پڑکر اپنے رب حقیقی سے غافل نہ ہو۔اس کے احکام واوامر کے مطابق زندگی گزارنے والا ہو۔ اس کے خوف سے ہمہ وقت لرزاں و ترساں ہو۔ اعمال ِ صالحہ کرنے والا ہو،نیکی و بھلائی کا داعی و شیدائی ہو، معاصی و سیئات سے کلی طور پر اجتناب کرنے والا ہو،وہ نفسانی خواہشات سے دور ہوالغرض خاکی صفات پر معرفت ِ الٰہی ، فیضانِ ربانی اور روحانی صفات کا غلبہ و تسلط ہواور ہمہ وقت یادِ الٰہی میں رطب اللسان ہوتاکہ وہ اللہ تعالیٰ کا فرمانبردار ، اطاعت شعار اور برگزیدہ بندہ بن جائے جیسا کہ حدیث پا ک میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری اور اس کے احکام کی بجاآوری سے انسان مقرب فرشتوں سے بھی آگے نکل جاتاہے اور وہ اللہ تعالیٰ کا اس قدر محبوب بن جاتاہے کہ وہ اس کی آنکھ ،کان ، ہاتھ اور پیر بن جاتا ہے اور اس کی ہر ضرورت کوغیب سے پوری کردیتاہے لیکن اس کے برعکس خاکی صفات انسان کوضلالت وگمراہی کی طرف لے جاتی ہیں۔اسے اللہ تعالیٰ کی نافرمانی اور خواہشات ِنفسانی کی پیروی کرنے پر ابھارتی ہیں،حق کوقبول کرنے سے دور رکھتی ہیں اس لئے انسان کوچاہئے کہ وہ نفسانی خواہشات اور شیطانی وسوسو ں کی پیروی کرنے سے حتی المقدور بچنے کی کوشش کرے اور صبرکے ہتھیاروں سے شیطانوں کے حملوں اور نفسانی خواہشات کا مقابلہ کرے اور ایمان ویقین کی طاقت و قوت سے شکوک د شبہات کا ازالہ کرنے کی کوشش کرے یہاں تک کہ وہ ربانیین اور صالحین کے درجے پر فائز ہوجائے جیسا کے ارشادِ بارئی تعالیٰ ہے: اور جب ان لوگو ں نے صبرکیا تو ہم نے ان میں ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے‘‘ (سجدہ 24)دوسری جگہ ارشاد ہے ـ’’اور جو لوگ ہماری راہ میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں ہم انہیں اپنی راہیں ضرور دیکھائیں گے یقینا اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کا ساتھی ہے ۔( العنکبوت69) اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں سے بہت زیادہ پیار و محبت ہے۔
وہ چاہتا ہے کہ بندے اس کی اطاعت وفرمانبرداری کریں۔ اس کے احکام کے مطابق زندگی گزاریںاور جب وہ اس کے پاس حاضر ہوں تو تمام گناہوں کی آلائشوں سے پاک وصاف ہوںتاکہ وہ آخرت کی ابدی زندگی آرام و چین اور سکون کے ساتھ گزار سکیں اسی لئے اس نے اپنے بندوں پر روزانہ5 وقت کی نمازیں، سال میں رمضان المبارک کے روزے اور مالداروں پر زکاۃ اور بیت اللہ شریف کا حج فرض فرمایا۔ روزہ اہم ترین عبادت ہے۔ رمضا ن المبارک کواللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا گیاہے۔ اس میں نوافل اورسنن کا اجرو ثواب فرض کے برابر کردیا جاتاہے اور فرض کا اجرو ثواب 7 سو گنا تک بڑھا دیا جاتا ہے۔روزے سے روح میں بالیدگی ،ایمان میں تازگی اور اللہ تعالیٰ کی ذات پر یقین واعتماد میں طاقت و قوت پیدا ہوتی ہے۔اس سے بھی بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی رضا وخوشنودی کا یہ سب سے اہم ذریعہ ہے۔ ایسا کیوں نہ ہواس لئے کہ بندہ اپنے خالقِ حقیقی کے خوف سے دن بھر کھانے پینے اور نفسانی خواہشات سے کلی طور پر اجتناب کرتا ہے۔
درحقیقت روزہ بندوں کے ایمان کوپرکھنے اور جانچنے کا ایک پیمانہ ہے جس بندے کے دل میں خشیت ِ الٰہی ہوتی ہے اسے آخرت میں حساب وکتاب اور جزاو سزا کا خوف ہوتاہے وہ احکام ِ الٰہی کوبجالانے اور تمام مشقتوں اور پریشانیوں کے باوجود روزہ رکھنے اور اس کے فضائل و برکات سے اپنے دامن کوبھرنے کی کوشش کرتا ہے۔ رمضان المبارک کا ایک لمحہ بھی یادِ الٰہی کے بغیر نہیں گزارتا۔ اسی لئے حدیثِ قدسی میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ابن ِ آدم کاہر عمل اس کے لئے ہے لیکن روزہ صرف میر ے لئے ہے۔ اس کا بدلہ میں ازخود عطا کروںگااس لئے کہ بندہ صرف میری رضا وخوشنودی کے خاطر بھوک وپیاس برداشت کرتا ہے اور نفسانی لذتوںسے دور رہتاہے۔ رمضان بندے کوگناہوں سے تطہیر اور پاک و صاف کرنے کا مہینہ ہے۔ جو شخص رمضان کے مکمل روزے رکھنے کا اہتمام کرتاہے، فسق وفجوراور ہر قسم کی لغزشوں سے بچنے کی کوشش کرتاہے اس کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔قربان جائیے اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور بخششوں پر کہ اس نے ہمارے گناہوں کو معاف کرنے کے لئے کیساکیساطریقہ اختیا ر کیا ہے۔ حدیثِ پاک میں آتاہے کہ جوبندئہ مومن پانچوں وقت کی نمازوں کو ان کے اوقات میں باجماعت ادا کرنے کا اہتمام کرتا ہے تو اس کے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔ اسی طرح جو بندئہ مومن رمضان المبارک کے مکمل روزے رکھتا ہے وہ بھی بخش دیا جاتاہے۔ رمضان المبارک صاحب ِ ایمان کواپنے پرایوں کے ساتھ ہمدردی ، غمخواری اور صلہ رحمی کرنے کادرس دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس دنیا میں امیر وغریب ، شاہ و گدا ، محتاج و غنی اور صحتمند و تندرست ہر قسم کے انسان پیدا کئے ہیں۔رمضان صاحبِ ثروت اور مخیر حضرات میں مواساۃ اور غمخواری کے جذبات پیدا کرنا چاہتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی نعمتوں کی قدر کریں اور اس کاہمہ وقت شکر بجالائیں کہ اللہ نے انہیں دولت و ثروت سے نوازا اور دوسرے کی محتاجی سے محفوظ رکھااس لئے انہیں چاہئے کہ وہ غریبوں ، محتاجوں ،معذوروں اور یتیم وبیواؤں کے ساتھ بلا تفریق و امتیاز ہمدردی و غمخواری اور صلہ رحمی کریں۔ حضرت ابنِ عباس ؓ ارشاد فرماتے ہیں کہ نبی رحمت محسنِ انسانیت
ـ سب سے زیادہ سخی ،فیاض ،رحمدل اور ہمدرد انسان تھے لیکن رمضان المبارک میں ان کی سخاوت و فیاضی میں بہت زیادہ اضافہ ہوجاتا تھا۔ حضرت یوسف ؑ کے متعلق روایت میں آتا ہے کہ وہ مصر کے وزیر خزانہ ہونے کہ باوجود شکم سیر ہوکر کبھی کھانا تناول نہیں فرماتے ۔کسی نے وجہ دریافت کی تو انہوں نے فرمایا کہ میں اس بات سے ڈرتا ہو ں کہ آسودگی کی حالت میں فقراء و مساکین کو فراموش نہ کرجاؤں۔ رمضان المبارک کا مہینہ انفرادی ،اجتماعی اور عائلی زندگی میں ایمانی او رروحانی انقلاب برپاکردیتا ہے ۔یہ مہینہ آتے ہی مساجد میں نمازیوں کی تعداد میں اضافہ ہوجاتاہے۔ لوگ عبادتِ الٰہی میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ ایمان کے جھونکوں سے صاحب ِ ایمان کے مشامِ جان معطر ہونے لگتے ہیں،ہرسو رحمتوں اور برکتوں کا سایہ فگن ہوجاتاہے، بہشت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں ،جہنم کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور سرکش شیاطین کو زنجیروں میں جکڑدیاجاتاہے اور فرشتے ندا لگاتے ہیں: اے بھلائی اور خیر کے چاہنے والے آگے بڑھو اور اے شر اور برائی کے چاہنے والے پیچھے ہٹو۔ اس مہینے میں لوگوں میں تقویٰ و پرہیزگاری اوراطاعت وبندگی کے جذبات دوسرے مہینوں کے مقابلے میں موجزن ہوجاتے ہیں جیسا کہ ارشاد بارئی تعالیٰ ہے: اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسا کے تم سے پہلے لوگوں پر روزہ فرض کیا گیا تھا تاکہ تم متقی اور پرہیزگار بن جاؤ‘‘(البقرہ 183) حدیث پاک میں آتا ہے کہ جب رمضان المبارک کامہینہ قریب آتا تو آپ کمر بستہ ہوجاتے اور اس کے استقبال کی پوری تیاری کرتے اور اپنے صحابہ کرام کوبھی اس کی تلقین فرماتے تاکہ اس کا ایک لمحہ بھی ضائع نہ ہو۔
ہمیں بھی چاہئے کہ اسوہ رسول کی اتباع و پیروی کرتے ہوئے اس ماہِ مبارک میں عبادت ، تلاوت ، تراویح پڑھنے اور اوراد و اذکار کے علاوہ اپنے روزوں کی حفاظت کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہوجائیں۔ ہماری خوش نصیبی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ایک بار پھر یہ مبارک مہینہ عطا کیاہے۔ ہم اس کی قدر کرنے والے بن جائیں تاکہ اس کی رضا وخوشنودی کے مستحق ہوجائیں۔