رسول اکرم شعبان کے آخر میں رمضان کی عظمت سے آگاہ کرتے، روزوں اور تراویح سے متعلق احکام اورہدایات دتے تھے
- - - - - - - - - - - - - - - - - - -
پروفیسر ڈاکٹر محمد مجیب اللہ منصوری ۔لاہور
---- - - - - - -- - - - - - - - -
وہ لوگ بڑے ہی خوش نصیب، خوش قسمت اور نہایت سعادت مند ہیں جنہیں اللہ رب العالمین اْن کی زندگی میں امن و ایمان، صحت و سلامتی اور اسلام کے ساتھ رمضان کا یہ آنے والا مہینہ مزید عطا فرمادے اور وہ مکمل شعور کے ساتھ جان بوجھ کر اِس مبارک اور عظیم مہینے کے ذریعے اللہ کی رحمتِ خاص، اْس کی مغفرت و بخشش، جہنم کی آگ سے نجات اور جنت کی عزت والی زندگی کے حصول کیلئے اخلاص کیساتھ اللہ کے رسول کے بتائے ہوئے طریقے اور سنت کے مطابق محنت و مشقت اور جدوجہد کرتے ہیں ۔ رمضان کا مہینہ اس قدر عظیم، مبارک اور اہمیت کا حامل ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اِس ماہِ مبارک کو روزے جیسی انتہائی اہم اور عظیم عبادت کیلئے نہ صرف منتخب کیا بلکہ رمضان کے روزوں کو مسلمانوں پر فرض اور اسلام کے بنیادی ارکان میں سے ایک اہم رکن قرار دیا۔اِس عظیم و مبارک مہینے کی اِسی اہمیت کے پیشِ نظر سیدِ انسانیت، رسولِ رحمت حضرت محمد مصطفی ماہِ رمضان کا اِستقبال رجب کے مہینے سے کیا کرتے اور ماہِ رمضان کیلئے رجب اور شعبان کے مہینوں کا ہلال (چاند) اہتمام کے ساتھ دیکھا کرتے تھے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب آپ رجب کا چاند دیکھتے تو یہ دعا فرماتے : ’’اے اللہ! رجب اور شعبان کے مہینوں کو ہمارے لیے باعثِ برکت بنادے اور رمضان کا مہینہ عطا فرما دے۔‘‘
رسولِ اکرم خود رمضان کیلئے شعبان کا چاند دیکھنے اور شعبان کی تاریخیں معلوم کرنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ اْم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں : ’’رسول اللہ دوسرے مہینوں کی بہ نسبت شعبان کی زیادہ حفاظت کرتے۔ ‘‘ یعنی شعبان کی تاریخیں معلوم کرنے اور اْنھیں یاد رکھنے کا اہتمام فرماتے تھے۔ نیز معلم و مربیٔ انسانیت حضرت محمد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو بھی ماہِ شعبان کا چاند دیکھنے، شعبان کی تاریخیں معلوم کرنے اور اْنھیں یاد رکھنے کا اہتمام کرنے کی ہدایت فرمایا کرتے تھے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ نے ہدایت فرمائی: ’’رمضان کیلئے شعبان کا چاند دیکھنے کا اہتمام کیا کرو۔‘‘ (ترمذی و الحاکم فی المستدرک)۔
اس حدیث کا مکمل مفہوم اور وضاحت یہ ہے کہ شعبان کا چاند اہتمام کے ساتھ دیکھنے کے بعد شعبان کی تاریخوں کو شمار کیا جائے اور ایک ایک دن گِنا جائے۔ جب شعبان کی 29 تاریخ ہو تو رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جا ئے۔ نبی رحمت معلم انسانیت حضرت محمد نے شعبان کا چاند دیکھنے کا اہتمام کرنے اور اس کی تاریخیں معلوم کرنے کی ہدایت اس لئے فرمائی تاکہ رمضان کے مہینے کے آغاز کا صحیح فیصلہ کرنے میں کسی قسم کی دقت اور مشکل پیش نہ آئے۔ احادیث سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ ماہِ رمضان سے گہرے روحانی تعلق کی بنا پر رسول اللہ پر رمضان کی آمد سے پہلے ہی شعبان کے مہینے میں ایک خاص کیفیت طاری ہوجاتی تھی۔ اْم المؤمنین سیدہ اْم سلمہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں: ’’حضور نبی کریم سال میں کسی مہینے کے پورے (نفلی) روزے نہیں رکھتے تھے سوائے شعبان کے، کہ جسے آپ رمضان سے جا ملاتے تھے۔‘‘(ترمذی والحاکم)۔ اْم المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں: ’’میں نے نبی اکرم کو کسی مہینے کے اکثر نفلی روزے رکھتے نہیں دیکھا سوائے ماہِ شعبان کے، آپ اِس مہینے کے سب سے زیادہ نفلی روزے رکھا کرتے تھے سوائے چند دنوں کے، بلکہ تقریباً پورا مہینہ ہی روزے رکھتے گزر جاتا تھا۔‘‘ (ترمذی)۔
حدیث کے مشہور امام جنابِ ترمذی ؒنے اِن دونوں حدیثوں سے متعلق حضرت عبداللہ ابن مبارک ؒ کا یہ قول نقل کیا ہے: ’’جب کوئی کسی مہینے کے اکثر دنوں کے روز ے رکھے تو یہی کہا جائے گا کہ اْس نے پورے مہینے کے روزے رکھے۔‘‘ ( سنن ترمذی)۔ رسول اکرم کا شعبان کے مہینے میں کثرت کے ساتھ روزے رکھنے کا عمل صرف آپ کے ساتھ خاص تھا، دوسروں کو اس کی اجازت نہ تھی چنانچہ رحمت ِ عالم، اْمت پر شفیق و مہربان نبی حضرت محمد عربی نے عام مسلمانوں کو یہ ہدایت فرمادی تھی کہ ماہ ِ شعبان کے آخری 15دنوں میں روزے نہ رکھا کریں۔حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ نبی کریم نے فرمایا: ’’جب شعبان کا مہینہ آدھا گزر چکے تو اْس کے بعد روزے نہ رکھو۔‘‘( ابوداود،ترمذی وابن ماجہ)۔
اس ممانعت کی حکمت یہ بھی ہے کہ رمضان سے پہلے متصل روز ے رکھنے سے کمزوری لاحق ہوجانے کی وجہ سے رمضان کے روزے پورے کرنے میں مشکل پیش آسکتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ رمضان کے روزے فرض اور اس کے علاوہ روزے نفل ہیں اور اسلام کو یہ مطلوب نہیں کہ نفل عبادت کی وجہ سے فرض عبادت نظراندازتودر کنار متاثر بھی ہو۔ اِسی وجہ سے دانائے کونین، سرورِ عالم، رسول رحمت حضرت محمد نے یہ ہدایت فرمائی کہ نصف شعبان کے بعد روزے نہ رکھے جائیں بلکہ رمضان کے فرض روزوں کی تیاری اور ماہِ رمضان کا شایانِ شان استقبال کیا جائے۔ رحمتِ دارین، ہادیٔ عالم حضرت محمد نے یہ بھی ہدایت فرمائی کہ 29 شعبان کو رمضان کا چاند دیکھنے کا اہتمام کیا جائے، اگر ہلالِ رمضان نظر آجائے تو ماہِ رمضان کے آغاز کا فیصلہ اور روزے رکھنا شروع کردیے جائیں اور چاند نظر نہ آنے کی صورت میں شعبان کے 30 دن مکمل کرکے پھر رمضان کے روزوں کا آغاز کیا جائے۔
اسی طرح شوال کا چاند (ہلالِ عید) دیکھ کر رمضان کے روزے رکھنا ختم کردیے جائیں۔ معلم و مربیٔ انسانیت خیرالبشر حضرت محمد رسول اللہ کا یہ مبارک معمول تھا کہ آپ شعبان کے جمعوں کے علاوہ رمضان کی آمد کے موقع پر شعبان کے آخر میں رمضان کے مبارک مہینے کی عظمت، اہمیت، فضائل اور برکات سے آگاہ کرنے، نیز رمضان کے روزوں اور تراویح سے متعلق احکام اوردیگر ہدایات دینے کیلئے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کو کبھی مختصر اور کبھی طویل خطبات ارشاد فرمایا کرتے تھے۔ اللہ تبارک و تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمارے لئے شعبان کو باعثِ برکت بنا دے اور رمضان کا عظیم و مبارک مہینہ عطا فرمادے۔ ماہِ رمضان کی خصوصی عبادات روزوں، نمازِ تراویح، قرآن کریم کی تلاوت و سماعت اور قرآن فہمی کیلئے دروسِ قرآن، قیامِ للیل، شب بیداریوں ، انفاق فی سبیل اللہ، انفرادی و اجتماعی تزکیہ و تربیت، تقویٰ و پرہیزگاری کے حصول کے حوالے سے ابھی سے بھرپور پلاننگ اور منصوبہ بندی کرنے، نیز ماہِ رمضان کے استقبال اور تیاری کیلئے سیدالمرسلین، خاتم النبیین، رحمۃللعالمین حضرت محمدکی ہدایات و احکامات اور آپ کے طریقے اور سنت پر عمل کی توفیق عطا فرمادے، آمین۔