جنوبی پنجاب میں گائے اور بھینسیں پالی جاتی ہیں لیکن ترجیح گائے کو دی جاتی ہے کیونکہ ان کی خوراک پر بھینسوں کی نسبت کم خرچ آتا ہے اور یہ دودھ بھی زیادہ دیتی ہیں، جس کی ترسیل پاکستان کے کئی علاقوں میں کی جاتی ہے۔
تاہم کچھ عرصے سے یہاں جانوروں کے چارے اور ادویات کی بڑھتی قیمتوں کی وجہ سے اس شعبے کو غیریقینی صورت حال کا سامنا ہے۔
جنوبی پنجاب میں ملتان، بہاولپور اور ڈیرہ غازی خان ڈویژن کے 11 اضلاع ملتان، وہاڑی، خانیوال، لودھراں، بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یارخان، راجن پور، لیہ، مظفر گڑھ اور ڈیرہ غازی خان شامل ہیں۔
جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں کی یونین کونسلوں میں ہر دوسری بستی میں ایسے مویشی پال بھی موجود ہیں جن کے پاس صرف پانچ سے چھے گائے یا بھینسیں موجود تھیں۔ ان مویشی پالنے والوں کے روزگار کا انحصار ان جانوروں کے دودھ پر تھا۔ انہیں اس وقت بڑے نقصان کا سامنا کرنا پڑا جب لِمپی سکن بیماری نے ان جانوروں کی جان لینا شروع کی۔
اس بیماری سے قبل جس شخص کے پاس آٹھ یا 10 جانور تھے، اس کے بعد ان میں سے صرف تین یا چار بچ گئے لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی اور جانوروں کی خوراک اور علاج اتنا مہنگا ہو گیا کہ کم تعداد میں مویشی رکھنے والوں نے اپنے جانور فروخت کرنا شروع کر دیے۔
لوگ اپنے جانور کیوں بیچ رہے ہیں؟
اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جنوبی پنجاب میں 7500 ڈیری فارم بند ہو چکے ہیں۔ یہ وہ چھوٹے ڈیری فارمز ہیں جن کو محکمہ لائیوسٹاک نے اپنی گنتی میں شامل نہیں کیا۔
ان چھوٹے ڈیری فارمز میں جانوروں کی تعداد چھ سے آٹھ تک تھی۔ یہ ایسے ڈیری فارم تھے جن کے مالک دودھ فروخت کر کے اپنا گزر بسر کر رہے تھے۔ ایسے چھوٹے ڈیری فارمز کی تعداد بہاولپور ڈویژن میں 2500 سے زائد، ملتان میں تین ہزار جبکہ ڈیرہ غازی خان میں دو ہزار تھی۔
وبائی بیماری لمپی سکن، مہنگی خوراک اور مہنگی ادویات خریدنے کے بعد دودھ کی قیمت مناسب نہ ملنے پر مویشی پالنے والوں نے اپنے بچے کھچے جانور کراچی اور لاہور کی منڈیوں میں فروخت کر دیے ہیں۔
اب چھوٹے ڈیری فارمز کے ساتھ ساتھ بڑے ڈیری فارموں کے مالک بھی مہنگائی کے سامنے بے بس دکھائی دے رہے ہیں کیونکہ پچھلے برس اپریل میں ونڈہ (جانوروں کی خوراک) 25 سو روپے فی من تھا جو اب 3500 روپے تک پہنچ چکا ہے۔ اسی طرح بُھوسہ اپریل 2022 میں ساڑھے تین ہزار روپے فی من تھا جو اب 6 ہزار روپے ہو چکا ہے جبکہ گھاس بھی 600 روپے من ہو چکی ہے۔ سیلج 850 روپے فی من ہو چکا ہے۔
مویشی پالنے والے بہت سے افراد جانوروں کی خوراک مہنگی ہونے کی وجہ سے جانوروں کے لیے مضرِ صحت شوگر ملز سے حاصل ہونے والی مڈ کا بھی استعمال کرتے ہیں جس سے دودھ کی پیداوار تو بڑھ جاتی ہے لیکن یہ جانوروں کی صحت اور زندگی کے لیے خطرناک ثابت ہوتی ہے۔ اس مڈ کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔
شوگر ملز سے ملنے والا مڈ 6100 روپے ٹن میں خریدنا پڑ رہی ہے جبکہ اپریل 2022 میں یہی مڈ 2100 روپے ٹن تھی۔
سوا کروڑ کے قریب گائے اور بھینسیں
محکمہ لائیوسٹاک کے 2022 اور 2023 کے اعدادوشمار کے مطابق ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں 26 لاکھ 65 ہزار 543 گائے جبکہ بھینسوں کی تعداد 13 لاکھ 31 ہزار 796 ہے۔
ملتان ڈویژن میں 20 لاکھ 75 ہزار47 گائیں جبکہ 14 لاکھ 37 ہزار 418 بھینسیں ہیں۔
بہاولپور ڈویژن میں 26 لاکھ 65 ہزار 346 گائیں جبکہ بھینسوں کی تعداد 13 لاکھ 31 ہزار 800 کے لگ بھگ ہے۔
جنوبی پنجاب کے 11 اضلاع میں گائے اور بھینسوں کی کل تعداد تقریباً ایک کروڑ 13 لاکھ 91 ہزار 253 ہے یعنی جنوبی پنجاب میں 46.46 فیصد گائے اور 31.49 فیصد بھینسیں پالی جاتی ہی۔
سب سے بڑا ڈیری فارم صادق آباد میں
جنوبی پنجاب کے ملتان ڈویژن میں چھوٹے بڑے 225 ڈیری فارمز ہیں۔ ان ڈیری فارمز میں جانوروں کی کم سے کم تعداد 50 اور زیادہ سے زیادہ 200 ہے۔
ڈیرہ غازی خان ڈویژن میں بھی ڈیری 225 ڈیری فارمز ہیں اور ان ڈیری فارمز میں جانوروں کی کم از کم تعداد 15 ہے اور زیادہ سے زیادہ تعداد 600 ہے۔
ڈیرہ غازی خان میں سب سے بڑا ڈیری فارم جام پور میں ہے جس میں جانوروں کی تعداد 600 ہے اور یہ جنوبی پنجاب کا دوسرا بڑا ڈیری فارم ہے۔
بہاولپور ڈویژن میں ڈیری فارمز کی تعداد 200 ہے۔ ان ڈیری فارمز میں جانوروں کی کم سے کم تعداد 15 اور زیادہ سے زیادہ 3500 ہے۔
بہاولپور میں ڈیری فارمز کی تعداد ملتان اور ڈیرہ غازی خان سے تو کم ہے لیکن جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا ڈیری فارم بہاولپور کے ضلع رحیم یار خان کی تحصیل صادق آباد کے نواحی علاقے جمال دین والی میں ہے۔
ان تینوں ڈویژنز کے ڈیری فارمز میں 70 فیصد گائیں پائی جاتی ہیں۔
جنوبی پنجاب میں جانوروں اور ڈیری فارم کے یہ مذکورہ اعدادوشمار محکمہ لائیو سٹاک کے سروے کے مطابق ہیں لیکن اصل تعداد ان سے کہیں زیادہ ہے کیونکہ محکمہ لائیو سٹاک نے اپنے اعدادوشمار میں وہ جانور شامل نہیں جو عام لوگ اور کاشت کار اپنے ڈیرے یا گھروں میں 3 سے لے کر 10 کی تعداد تک رکھتے ہیں۔
’دودھ اور گوشت کا بڑا بحران پیدا ہو سکتا ہے‘
رحیم یار خان کے نواحی علاقے میں مویشی پالنے والے رانا امیر محمد نے اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’گذشتہ برس میرے پاس 600 جانور تھے اور اب صرف 80 جانور ہیں۔ اب مہنگائی اتنی زیادہ ہو گئی ہے کہ ہم اب جانور نہیں پال سکتے۔ ایک جانور فروخت کر کے دوسرے جانور کی خوراک کا بندوبست کر رہے ہیں۔‘
’دودھ کی قیمت مناسب مل رہی ہے اور نہ ہی گوشت کی۔ اب ہم ڈیری فارم نہیں چلا سکتے۔ یہ تو ہمارا حال ہے، چھوٹے مویشی پال اس بھی برے حالات میں ہیں۔ اگر حکومت فوری طور پر جانوروں کی خوراک پر سبسڈی نہیں دیتی تو بڑے ڈیری فارمز بھی بند ہو جائیں گے اور دودھ اور گوشت کا بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔‘
’ہم زیادہ دیر یہ کام نہیں چلا سکتے‘
رحیم یار خان کے ایک اور مویشی پال جام ثنا اللہ پنوار کا کہنا ہے کہ ’میں 20 برس سے جانوروں کا کام کر رہا ہوں۔ میں نے آج تک اتنے برے حالات نہیں دیکھے جو آج ہیں۔ جانوروں کی خوراک اتنی مہنگی ہو چکی ہے کہ خریدنا ناممکن ہو چکا ہے۔‘
انہوں نے کہا کہ ’میرے آس پاس کے 80 فیصد مویشی پالنے والوں جانور فروخت کر دیے ہیں اور اب میں بھی سوچ رہا ہوں کہ کوئی اور کام کروں۔‘
’اب یہ کام منافع بخش نہیں رہا۔ دو سال سے جانوروں کی قیمتیں بڑھی ہیں اور نہ ہی دودھ کی۔ ہم زیادہ دیر یہ کام نہیں چلا سکتے۔‘