Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا رواں سال کا ایشیا کپ پاکستان کو نکال کر کسی دوسرے ملک میں منعقد ہوگا؟

پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کے بارے میں ایک اور مسئلہ براڈکاسٹرز کا پیسہ بھی ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)
رواں سال پاکستان میں شیڈول ایشیا کپ پر بے یقینی کے باد ہنوز لہرا رہے ہیں۔
پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق متضاد خبریں آ رہی ہیں کہ ایشیا کپ ملتوی ہو سکتا ہے اور اس کی جگہ پاکستان کو نکال کر ایک اور ٹورنامنٹ متحدہ عرب امارات میں کھیلا جا سکتا ہے۔
تاہم اس حوالے سے ایشین کرکٹ کونسل (اے سی سی) کے ذرائع نے پیر کے روز کہا ہے کہ انہوں نے کسی بھی فریق ملک کو ایسا کوئی بھی پرپوزل نہیں بھیجا ہے۔
پاکستانی میڈیا کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر نیوٹرل مقام پر پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کھیلنے پر رضا مند نہیں ہوتا تو ٹورنامنٹ کو ملک سے باہر لے جایا جاسکتا ہے۔
ایشیا کپ 2023 کے میزبانی کے حقوق پاکستان کے پاس ہیں اور یہ ون ڈے فارمیٹ کا ہوگا تاہم انڈین کرکٹ بورڈ (بی سی سی آئی) کے سیکریٹری جے شاہ، جو کہ اے سی سی کے چیئرمین بھی ہیں، نے واضح کیا تھا کہ انڈین ٹیم پاکستان کھیلنے نہیں جائے گی۔
اسی سلسلے میں پی سی بی نے ایشیا کپ کی میزبانی کے لیے ’ہائبرڈ ماڈل‘ تجویز کیا تھا جس کے تحت ٹورنامنٹ کے سارے میچز سوائے انڈیا کے پاکستان میں جبکہ انڈیا کے میچز نیوٹرل وینیو پر ہوں گے۔
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ بی سی سی آئی پورا ٹورنامنٹ یو اے ای میں شفٹ کرنا چاہتا ہے جہاں دبئی، شارجہ اور ابو ظبی جیسے تین گراؤںڈ ہیں۔
 2018 اور 2022 کا ایشیا کپ بھی یو اے ای میں کھیلا گیا تھا جس کے اصل میزبان بالترتیب انڈیا اور سری لنکا تھے۔
اے سی سی بورڈ کے رُکن نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر پی ٹی آئی کو بتایا کہ ’پیغامات کا تبادلہ ہوا ہے لیکن ایشیا کپ کو ملتوی کرنے کے بارے میں کوئی پیشکش یا گفتگو ابھی تک نہیں کی گئی ہے۔‘
انہوں نے مزید انکشاف کیا کہ ’اگر ایشیا کپ منسوخ ہوتا ہے تو پی سی بی کو پہلے اطلاع دی جائے گی۔ ابھی تک ایسا کچھ بھی نہیں ہوا۔ اے سی سی کے چیئرمین جے شاہ نے ابھی ایسا کچھ بھی ریکارڈ پر نہیں لایا۔‘
ایونٹ کو منسوخ کرنے کے لیے اے سی سی ایگزیکیٹیو بورڈ کی میٹنگ بلائے گا، چیئرمین جے شاہ میٹنگ کو سات روز میں بلا سکتے ہیں، ابھی تک اس بارے میں کوئی بھی معلومات سامنے نہیں آ سکی ہے۔‘
ذرائع کے مطابق پی سی بی، اے سی سی اور بی سی سی آئی کے درمیان آخری آفیشل میل انڈین ٹیم کو دعوت نامے کے طور پر بھیجی گئی تھی جس میں اس بات کی یقین دہانی کروائی گئی تھی کہ انڈین ٹیم کو اعلیٰ سطح کی سکیورٹی اور بہترین مہمان نوازی دی جائے گی۔
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’لیکن ظاہر ہے، اس سیاسی ماحول میں انڈیا کے لیے پاکستان جانا مشکل ہے۔‘
پاکستان اور انڈیا کے درمیان میچ کے بارے میں ایک اور مسئلہ براڈکاسٹرز کا پیسہ بھی ہے جو کہ ٹورنامنٹ کے دو میچز کے لیے طے ہے اور اگر دونوں ٹیمیں فائنل میں پہنچ جاتی ہیں تو تیسرا میچ سونے پر سہاگے جیسا ہوگا۔
اے سی سی کے ذرائع نے اس بارے میں کہا کہ ’ہمیں نشریاتی حقوق اور سٹار سپورٹس کے معاہدے کو بھی دیکھنا ہوگا، جنہوں نے کروڑوں روپے ایشیا کپ میں پاکستان اور انڈیا کے دو میچز کے لیے خرچ کیے ہیں۔‘
یہاں یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ اے سی سی کے ارکان کے درمیان جب ایونٹ کو نیوٹرل مقام پر منعقد کروانے کے لیے غیر سرکاری بات چیت ہوئی تھی تو بی سی سی آئی کو سری لنکن کرکٹ بورڈ سے حمایت حاصل ہوئی تھی۔
دیکھیں اگر اے سی سی کے چیئرمین کی جانب سے بلائے گئے ایگزیکیٹو بورڈ کے اجلاس میں ٹورنامنٹ منسوخ ہوجاتا ہے تو صرف پاکستان کی ورلڈ کپ میں شرکت پر بھی سوال نہیں اٹھیں گے بلکہ پی سی بی کے فیوچر ٹور پروگرام کیلنڈر اور سری لنکا، بنگلہ دیش اور افغانستان کے خلاف باہمی تعلقات پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔ صورتحال ابھی کافی غیر یقینی ہے۔‘

شیئر: