بدھ کو ایک قبائلی گروہ کی جانب سے نکالا گیا احتجاجی مارچ پرتشدد ہو گیا تھا جس کے بعد ہزاروں فوجیوں کو منی پور بھیجا گیا۔
حکام نے بدامنی پر قابو پانے کیے لیے انٹرنیٹ بند کر دیا ہے جبکہ حالات پر قابو پانے کے لیے ’نہائیت ناگزیر صورتحال‘ میں دیکھتے ہی گولی مارنے کا حکم بھی جاری کیا ہوا ہے۔
پولیس نے اے ایف پی کو بتایا کہ جمعے کی رات کو تشدد کے تازہ واقعے کے بعد حالات ابھی بھی کشیدہ ہیں۔
خبر ایجنسی پریس ٹرسٹ آف انڈیا (پی ٹی آئی) کے مطابق ریاستی دارالحکومت امپھال اور جنوب میں ضلع چورا چند پور کے ہسپتالوں کے مردہ خانوں سے مجموعی طور پر 54 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے۔
پی ٹی آئی کا کہنا ہے کہ ایک مقامی سرکاری عہدیدار نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’16 لاشیں ضلع چورا چند پور کے ہسپتال میں ہیں جبکہ 15 لاشیں امپھال کے جواہر لال نہرو انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں موجود ہیں۔ اس کے علاوہ مغربی ضلع لامپھل کے ریجنل انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز میں 23 لاشوں کی موجودگی کی اطلاع ہے۔‘
منی پور کے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس پی ڈونگل نے جمعے کو صحافیوں کو بتایا کہ سکیورٹی فورسز حالات کو قابو لانے کی کوشش کر رہی ہیں۔
سیکورٹی فورسز اور منی پور حکومت نے ابھی تک اس ہفتے میں تشدد سے مرنے والوں کے سرکاری اعداد و شمار جاری نہیں کیے ہیں۔
تاہم انڈیا کے وزیر قانون کرن ریجیجو نے سنیچر کو صحافیوں کو بتایا کہ ’کئی دنوں سے جاری فسادت کی وجہ سے جہاں املاک کو نقصان پہنچا ہے وہی کئی افراد اپنی جان سے بھی گئے ہیں۔‘
انٹرنیٹ بلیک آؤٹ نے منی پور سے معلومات کی فراہمی میں رکاوٹ ڈالی ہے اور جمعے کو ہونے والے تازہ ترین تصادم کے حوالے سے تفصیلات بہت کم ہیں۔
شمال مشرقی ریاست منی پور درجنوں قبائلی گروہوں اور چھوٹی گوریلا افواج، جن کے مطالبات زیادہ خود مختاری سے لے کر انڈیا سے علیحدگی تک ہیں، کا گھر ہے۔
سنہ 1950 کے اوائل میں منی پور میں پہلی شورش شروع ہونے کے بعد سے اب تک تنازعات میں کم از کم 50 ہزار افراد اپنی جانیں گنوا چکے ہیں۔