Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

کیا غیرمعیاری کوریئر سروس پاکستان میں آن لائن کاروبار کے فروغ میں رکاوٹ ہے؟

پاکستان میں آن لائن کاروبار میں صرف دو فیصد کسٹمرز ڈیلیوری سے قبل رقم دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ (فائل فوٹو: فری پک)
آن لائن سامان خریدنا یا بیچنا اب ایک معمول کا کام ہے، لیکن یہ معمول کا کام بھی بعض اوقات کئی افراد کے لیے سر درد بن جاتا ہے۔
لاہور کے علاقے برکت مارکیٹ میں کئی منزلہ اونچے پلازے کے تیسرے فلور پرچند نوجوان سر جوڑے مختلف سی سی ٹی وی فوٹیجز کے کلپ اکٹھے کر رہے ہیں۔ اس کمپنی نے اپنے گاہکوں کو سامان بھیجا تھا لیکن کوریئر کمپنی کا نمائندہ یہ سامان لے کر غائب ہو گیا تھا اور یہ تیسرا دن ہے کہ اس نمائندے کی کھوج لگانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
کمپنی کے مالک بدر زمان بتاتے ہیں کہ ان کی روزانہ کی سیل میں تقریباً 50 کے لگ بھگ پارسل ہوتے ہیں۔ ’عام طور پر کوریئر کمپنی کے دو افراد روزانہ آتے ہیں ایک نیچے گاڑی میں ہی ہوتا ہے اور دوسرا سامان لینے اوپر آتا ہے۔ سامان زیادہ ہو تو ہمارے لڑکے بھی ساتھ جا کر سامان لوڈ کرواتے ہیں۔ اس دن کوریئر کمپنی کا جو لڑکا آیا اس کو ہم نے پہلے نہیں دیکھا تھا۔ ہمیں لگا شاید نیا بھرتی ہوا ہو۔‘
’ہمارے اس دن کے 35 پیکجز تھے جو ہم نے اس کے حوالے کیے۔ دو سے تین گھنٹے کے بعد کوریئر کمپنی کی طرف سے کال آئی کہ آج آپ کا کوئی سامان نہیں، تو میں نے بتایا کہ سامان تو بھیج دیا انہوں نے بتایا کہ سامان کمپنی کے دفتر نہیں آیا۔‘
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’ہمارے تو پیروں تلے سے زمین ہی سرک گئی۔ کمپنی نے فوری طور پر شکایت تو ہماری درج کر لی، ہم نے پولیس کو بھی درخواست دے دی لیکن ابھی تک وہ بندہ نہیں پکڑا گیا۔ ہم نے 12 مختلف کیمروں کی ریکارڈنگ نکلوائی جس میں وہ لڑکا کوریئر کمپنی کی وردی میں پلازے میں داخل ہوتا ہے اور پھر پچھلی طرف سے سامان سمیت نکلتا بھی دکھائی دے رہا ہے۔ وہ بار بار پیچھے مڑ کر دیکھ بھی رہا ہے۔‘

کوریئر کمپنیاں آن لائن کاروبار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

پاکستان میں ایک درجن کے قریب رجسٹرڈ کوریئر کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ حالیہ کچھ برسوں میں ان کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ اس سے پہلے صرف چھ سے سات کمپنیاں کی کام کر رہی تھیں۔
کوریئر کمپنیاں آن لائن کاروبار میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہیں کیونکہ تاجر سے سامان لے کر صارف تک پہنچانا اور پھر صارف سے رقم لے کر واپس تاجر کو دینے کے سارے عمل کا فیلڈ ورک کوریئر کمپنی ہی کرتی ہے۔
لاہور کے ہی ایک اور آن لائن کاروبار سے وابستہ تاجر باسط اعجاز نے بتایا کہ وہ چار سال سے کچن سے متعلق اشیا فروخت کر رہے ہیں۔
’جو کوریئر کمپنی ہمارا سامان صارفین تک پہنچاتی ہے وہ ایک اچھی کمپنی ہے اور ہمارا ان کے ساتھ تین سال سے تعلق ہے۔ مجھے صرف ایک ہی شکایت رہی ہے کہ کئی دفعہ صارف کو سامان ٹوٹا ہوا ملا۔ لیکن کوریئر کمپنی اس بات کی ذمہ داری نہیں لیتی۔ حالانکہ ہر کمپنی کے ہر پارسل کی انشورنس ہوتی ہے، اگر آپ ضدی ہیں اور آپ معاملے کی تہہ تک جانا چاہتے ہیں تو وہ عمل اتنا پیچیدہ ہے کہ دو دفعہ میں نے راستے میں ہی چھوڑ دیا۔‘

مسئلہ کیا ہے؟

بدر زمان کہتے ہیں کہ وہ گزشتہ ایک برس میں 45 لاکھ روپے کے مقروض ہو چکے ہیں۔
’میں نے کوریئر کمپنیاں بدل کے بھی کام کیا ہے لیکن نتائج میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔ کبھی تو ایسے بھی ہوتا ہے کہ 50 فیصد پیکج ڈیلیوری کے بغیر واپس آ جاتے ہیں۔ کسٹمر ہمیں بتا رہا ہوتا ہے کہ کوریئر والا آیا ہی نہیں جبکہ کوریئر کمپنی آپ کو اپنے رائڈر کی پوری ٹریس تفصیلات بتا رہی ہوتی ہے، تو ہم بیچ میں پھنس جاتے ہیں کہ کون سچ بول رہا ہے۔‘
کوریئر کمپنی سوفٹ کے ہیومن ریسورس آفیسر محمد اقبال کہتے ہیں کہ فیلڈ سٹاف اور صارفین کے لیول پر مسائل آتے ہیں
’اس میں بھی بڑی وجہ کیش آن ڈیلیوری کی بھرمار ہے۔ اگر لوگ براہ راست پیسے آن لائن بینکنگ یا دیگر ذریعوں سے دیں تو اس سے کافی بہتری ہو سکتی ہے۔ کمپنیوں کے اندر شکایت کے حل کا پورا ایک طریقہ کار ہے اور رائیڈرز پر چیک اینڈ بیلنس بھی ہوتا ہے اور اس پر پوری توجہ دی جاتی ہے۔‘

پاکستان میں ایک درجن کے قریب رجسٹرڈ کوریئر کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔ (فائل فوٹو: لیپرڈ کوریئر)

پاکستان میں صارفین کی جانب سے عمومی طور پر یہ شکایت کی جاتی ہے کہ کوریئر کا نمائندہ ان کے گھر سرے سے آیا ہی نہیں یا پھر جو چیز منگوائی گئی اس کے برعکس کچھ نکلا۔ جبکہ کوریئر کمپنی کے نمائندوں کو اس بات کا سامنا کرنا پڑتا ہے کہ کیش آن ڈیلیوری کے لیے لوگ پیکج کے مطابق پیسے تیار نہیں رکھتے جس کی وجہ سے انتظار کرنا پڑتا ہے۔
لوگ آرڈر کر دیتے ہیں لیکن مقررہ وقت پر گھر نہیں ہوتے۔ اس ساری صورت حال سے وہ لوگ ضرور متاثر ہو رہے ہوتے ہیں جو نیا نیا آن لائن کاروبار کر رہے ہوتے ہیں۔

معاملے کا حل کیا ہے؟

ماہر نفسیات ڈاکٹر شاہزیب کہتے ہیں کہ ’اصل مسئلہ فیلڈ سٹاف کی وجہ سے ہوتا ہے۔ ان کی کسی قسم کی جاب سکیورٹی نہیں ہوتی۔ سارا دن انہیں ہزار اقسام کے افراد سے واسطہ رہتا ہے جبکہ ان کو کسی قسم کی ٹریننگ بھی نہیں دی جاتی۔ کمپنیاں ان پر کیوں انویسٹ کریں جبکہ ان کی جگہ کوئی بھی شخص نوکری کے لیے مل سکتا ہے۔‘
’اس لیے اسے اتنی فکر نہیں ہوتی کہ پارسل ڈیلیور ہوا ہے یا نہیں۔ کام کا سٹریس اور انواع و اقسام کے لوگوں سے روزانہ ڈیل کرنا اور اپنے رائیڈر کو تربیت دینا کمپنیوں کا کام ہے لیکن اس پر توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔‘
ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں آن لائن کاروبار میں صرف دو فیصد افراد ایسے ہیں جو کیش آن ڈیلیوری کے بجائے آن لائن پیسے دینے کو ترجیح دیتے ہیں۔ کوریئر مسائل سے نمٹنے کے لیے کچھ کپمنیوں نے اپنا الگ نظام وضع کرنا شروع کر دیا ہے۔

شیئر: