پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی منگل کو ہوئی گرفتاری کے بعد دو دن تک ملک کے کئی شہر ہنگامہ آرائی کی زد میں رہے۔ بعض جگہوں پر ابھی تک حالات معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔
مظاہرین نے ملک کے بڑے شہروں لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی میں اہم عسکری اور دیگر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔
مزید پڑھیں
-
پی ٹی آئی کارکنوں کی حکمت عملی سے پولیس چکرا گئیNode ID: 763751
پرتشدد ہنگاموں میں ملوث افراد کی بڑی تعداد کے علاوہ تحریک انصاف کے کئی اہم رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور پرتشدد مظاہروں میں ملوث افراد کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات ے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
اس وقت امن عامہ کی بحالی کے قانون کی دو شقوں تھری ایم پی او اور 16 ایم پی او کا زیادہ ذکر کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب دفعہ 144 کے تحت بھی بہت سے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے کون کون سے رہنما گرفتار ہیں؟
مختلف شہروں سے اب تک گرفتار ہونے والے تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں میں جنرل سیکریٹری اسد عمر، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر شریں مزاری، قاسم سُوری، مسرت جمیشد چیمہ، جمشید چیمہ، ملکیہ بخاری، سنیٹر اعجاز چوہدری، علی محمد خان، علی زیدی، عمر سرفراز چیمہ کے نام شامل ہیں۔
اس کے علاوہ عالیہ حمزہ ملک، صاحبزادہ صبغت اللہ، علی افضل ساہی اور ان کے بھائی جنید ساہی، بلال اشرف بسرا، رکن صوبائی اسمبلی سعید آفریدی، اکرم عثمان، عائشہ بھٹہ، ڈاکٹر امجد وزیر، خسرو بختیار، علی افضل ساہی، خیال احمد کاسترو، مبین خلجی اور سینیٹر فلک ناز چترالی بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں۔
مذکورہ رہنماؤں میں سے اکثر کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر کو کراچی،کوئٹہ، فیصل آباد اور خیبرپختونخوا سے حراست میں لیا گیا۔
پرتشدد ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے بیشتر رہنماؤں کو نقضِ امن کے قانون اور دفعہ 144 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، ایم پی اے سعید آفریدی، اکرام عثمان اور عائشہ بھٹہ کو ان کے گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا گیا۔
اسلام آباد پولیس اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بار بار انتباہی پیغامات جاری کر رہی ہے جس میں شہریوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
پولیس نے شہریوں سے گزارش کی ہے کہ ’وہ قانونی عمل میں رکاوٹ نہ بنیں۔‘
اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ العمل ہے۔
عوام سے گذارش ہے کہ قانونی عمل میں رکاوٹ نہ بنیں۔
اسلام آباد پولیس قیام امن عامہ کو یقینی بنانے کےلئے مصروف عمل ہے۔
شہریوں سے گذارش ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے اطراف میں جانے سے گریز کریں۔#ICTP
— Islamabad Police (@ICT_Police) May 12, 2023
گزشتہ کل اسلام آباد پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں ملوث 108 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ان کے گھر سے پولیس نے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا۔
اب سوال یہ ہے کہ تھری اور 16 ایم پی او کیا ہیں۔ دفعہ 144 انتظامیہ کو کیا اختیارات دیتی ہے۔
امنِ عامہ کی بحالی کا قانون پولیس کو کیا اختیارات دیتا ہے؟
اس قانون کا نام ’مینٹیننس آف پبلک آرڈر‘ ہے اور مختصراً اسے ایم پی او یا امنِ عامہ کی بحالی کا قانون کہا جاتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کو نقضِ امن میں پکڑ لیا گیا تو یہی قانون مراد ہوتا ہے۔
یہ قانون تقسیم ہند کے قبل انگریزوں کی حکمرانی کے دور سے چلا آ رہا ہے، پاکستان میں اسی قانون کو معمولی ترامیم کے ساتھ جاری رکھا گیا ہے۔
تھری ایم پی او
اس قانون کی شق تین کے مطابق اگر حکومت کسی شخص کے بارے میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ امنِ عامہ میں کسی بھی حوالے سے خلل کا باعث بن سکتا ہے تو وہ اس کو گرفتار کرنے یا حراست میں لینے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔
اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ گرفتار شخص بعد میں بھی امن عامہ کے خطرہ بن سکتا ہے تو وہ اس کی حراست کے دورانیے میں اضافہ بھی کر سکتی ہے لیکن ایسے شخص کو ایک وقت میں چھ ماہ سے زیادہ قید نہیں رکھا جا سکتا۔
اسلام آباد پولیس نے 9 مئی آج تک سے 493 افراد کو گرفتار کیا۔
5 افراد کو ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے رہا کیا گیا۔
3 افراد ضمانت پر ہیں۔#ICTP
— Islamabad Police (@ICT_Police) May 12, 2023