Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

پی ٹی آئی قیادت کی گرفتاریاں، تھری ایم پی او اور دفعہ 144 کیا ہے؟

پرشدد مظاہروں اور توڑ پھوڑ میں ملوث افراد کی شناخت اور گرفتاریوں کا سلسلہ جاری ہے (فوٹو: اے ایف پی)
پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے چیئرمین اور سابق وزیراعظم عمران خان کی منگل کو ہوئی گرفتاری کے بعد دو دن تک ملک کے کئی شہر ہنگامہ آرائی کی زد میں رہے۔ بعض جگہوں پر ابھی تک حالات معمول پر نہیں آ سکے ہیں۔
مظاہرین نے ملک کے بڑے شہروں لاہور، کراچی، پشاور اور راولپنڈی میں اہم عسکری اور دیگر سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا۔
 پرتشدد ہنگاموں میں ملوث افراد کی بڑی تعداد کے علاوہ تحریک انصاف کے کئی اہم رہنماؤں کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔
پی ٹی آئی کے رہنماؤں اور پرتشدد مظاہروں میں ملوث افراد کے خلاف تعزیراتِ پاکستان کی مختلف دفعات ے تحت مقدمات درج کیے گئے۔
اس وقت امن عامہ کی بحالی کے قانون کی دو شقوں تھری ایم پی او اور 16 ایم پی او کا زیادہ ذکر کیا جا رہا ہے۔ دوسری جانب دفعہ 144 کے تحت بھی بہت سے افراد کو گرفتار کیا گیا ہے۔

پی ٹی آئی کے کون کون سے رہنما گرفتار ہیں؟

مختلف شہروں سے اب تک گرفتار ہونے والے تحریک انصاف کے مرکزی رہنماؤں میں جنرل سیکریٹری اسد عمر، فواد چوہدری، شاہ محمود قریشی، ڈاکٹر شریں مزاری، قاسم سُوری، مسرت جمیشد چیمہ، جمشید چیمہ، ملکیہ بخاری، سنیٹر اعجاز چوہدری، علی محمد خان، علی زیدی، عمر سرفراز چیمہ کے نام شامل ہیں۔
اس کے علاوہ عالیہ حمزہ ملک، صاحبزادہ صبغت اللہ، علی افضل ساہی اور ان کے بھائی جنید ساہی، بلال اشرف بسرا، رکن صوبائی اسمبلی سعید آفریدی، اکرم عثمان، عائشہ بھٹہ، ڈاکٹر امجد وزیر، خسرو بختیار، علی افضل ساہی، خیال احمد کاسترو، مبین خلجی اور سینیٹر فلک ناز چترالی بھی گرفتار ہونے والوں میں شامل ہیں۔
مذکورہ رہنماؤں میں سے اکثر کو اسلام آباد سے گرفتار کیا گیا جبکہ دیگر کو کراچی،کوئٹہ، فیصل آباد اور خیبرپختونخوا سے حراست میں لیا گیا۔

اسلام آباد پولیس اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر تسلسل کے ساتھ  دفعہ 144 سے معتلق انتباہی پیغامات جاری کر رہی ہے۔ (فائل فوٹو: روئٹرز)

پرتشدد ہنگاموں اور توڑ پھوڑ کے واقعات کے بعد تحریک انصاف کے بیشتر رہنماؤں کو نقضِ امن کے قانون اور دفعہ 144 کے تحت گرفتار کیا گیا ہے۔
ڈاکٹر شیریں مزاری، سابق گورنر پنجاب عمر سرفراز چیمہ، ایم پی اے سعید آفریدی، اکرام عثمان اور عائشہ بھٹہ کو ان کے گھروں پر چھاپے مار کر گرفتار کیا گیا۔
اسلام آباد پولیس اپنے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر بار بار انتباہی پیغامات جاری کر رہی ہے جس میں شہریوں کو آگاہ کیا جا رہا ہے کہ اسلام آباد میں دفعہ 144 نافذ ہے۔
پولیس نے شہریوں سے گزارش کی ہے کہ ’وہ قانونی عمل میں رکاوٹ نہ بنیں۔‘
گزشتہ کل اسلام آباد پولیس نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ جلاؤ گھیراؤ اور توڑ پھوڑ میں ملوث 108 افراد کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
تحریک انصاف کی رہنما ڈاکٹر شیریں مزاری کو جمعرات اور جمعے کی درمیانی شب ان کے گھر سے پولیس نے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا۔

شیریں مزاری کو اسلام آباد میں ان کے گھر سے تھری ایم پی او کے تحت گرفتار کیا گیا (فوٹو: سکرین گریب)

اب سوال یہ ہے کہ تھری اور 16 ایم پی او کیا ہیں۔ دفعہ 144 انتظامیہ کو کیا اختیارات دیتی ہے۔

امنِ عامہ کی بحالی کا قانون پولیس کو کیا اختیارات دیتا ہے؟

اس قانون کا نام ’مینٹیننس آف پبلک آرڈر‘ ہے اور مختصراً اسے ایم پی او یا امنِ عامہ کی بحالی کا قانون کہا جاتا ہے۔ جب یہ کہا جاتا ہے کہ فلاں کو نقضِ امن میں پکڑ لیا گیا تو یہی قانون مراد ہوتا ہے۔
یہ قانون تقسیم ہند کے قبل انگریزوں کی حکمرانی کے دور سے چلا آ رہا ہے، پاکستان میں اسی قانون کو معمولی ترامیم کے ساتھ جاری رکھا گیا ہے۔

تھری ایم پی او

اس قانون کی شق تین کے مطابق اگر حکومت کسی شخص کے بارے میں یہ سمجھتی ہے کہ وہ امنِ عامہ میں کسی بھی حوالے سے خلل کا باعث بن سکتا ہے تو وہ اس کو گرفتار کرنے یا حراست میں لینے کا حکم جاری کر سکتی ہے۔
اگر حکومت یہ سمجھتی ہے کہ گرفتار شخص بعد میں بھی امن عامہ کے خطرہ بن سکتا ہے تو وہ اس کی حراست کے دورانیے میں اضافہ بھی کر سکتی ہے لیکن ایسے شخص کو ایک وقت میں چھ ماہ سے زیادہ قید نہیں رکھا جا سکتا۔
قانون کے مطابق نقضِ امن کے خدشے کے پیش نظر اگر کسی شخص کی گرفتاری کا حکم جاری ہو تو پولیس کا سب انسپیکٹر یا اس سے اوپر کے رینک کا بھی افسر اس شخص کو وارنٹ دکھائے بغیر گرفتار کر سکتا ہے۔
اگر کسی شخص کو تین ماہ سے زیادہ قید رکھنا مطلوب ہو تو ہائی کورٹ ایک بورڈ تشکیل دے گا جو ان وجوہات کا جائزہ لے گا جن کی بنیاد پر گرفتار شخص کی حراست کا دورانیہ بڑھانا ناگزیر ہے۔

16 ایم پی او کیا ہے؟

اسی قانون کی شق 16 افواہ سازی وغیرہ پر روک لگانے کے لیے کارروائی کی جا سکتی ہے۔
نقض امن کے قانون کی اس شق کو عرفِ عام میں ’16 ایم پی او‘ بھی کہا جاتا ہے۔

پولیس کے ساتھ ساتھ پیرا ملٹری فورسز بھی امن و امان کو بحال رکھنے پر مامور ہیں (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس شق کے تحت اگر کوئی شخص ایسی تقریر کرے یا لکھ اور  بول کر کوئی ایسی بات کرے جو حکومت کی نظر میں افواہ پھیلانے کے مترادف ہو تو اسے گرفتار کیا جا سکتا ہے۔ اس کے تحت آڈیوز وغیرہ بھی آتی ہیں۔
اگر ایسی تقریر، تحریر یا آواز عوام یا عوام کے کسی بھی گروہ کے لیے خطرے کا باعث بن رہی ہو یا اس کا امکان ہو یا پھر وہ امنِ عامہ کے لیے خطرے کا باعث ہو تو ایسے شخص تین برس تک قید، جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔

دفعہ 144 کب لاگو ہوتی ہے؟

 پاکستان میں کسی بھی بڑی سیاسی تبدیلی، اہم شخصیات سے متعلق عدالت کے فیصلوں اور دیگر وجوہات کی بنیاد پر جب مظاہرے اور احتجاج شروع ہو جائیں یا ہونے کا امکان ہو تو حکومت دفعہ 144 نافذ کرنے کا اعلان کر دیتی ہے۔
پولیس اور دیگر قانون نافذ کرنے والے ادارے اس دفعہ کے تحت بھی کارروائیاں شروع کر دیتے ہیں۔
پتنگ کی ڈور سے شہریوں کو پہنچنے کے والے ممکنہ نقصان کے پیش نظر بھی اسی دفعہ کا استعمال کیا جاتا ہے اور موٹر سائیکل کی ڈبل سواری کی بھی پابندی لگائی جاتی ہے۔

پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کو ان کے گھروں پر چھاپے مار کر پولیس نے گرفتار کیا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

اس وقت بھی اسلام آباد سمیت مختلف شہروں میں دفعہ 144 نافذ ہے جبکہ اسی کے تحت بھی بہت سے مظاہرین کو پولیس نے گرفتار کیا ہے۔
کوڈ آف کریمنل پروسیجرز (سی آر پی سی) کی دفعہ 144 ضلعی انتظامیہ (ڈپٹی کمشنر یا مجاز آفیسر) کو یہ اختیار دیتی ہے کہ وہ کسی بھی علاقے میں مخصوص وقت کے لیے عوامی مفاد میں جلسوں، مظاہروں اور اجتماعات پر پابندی عائد کر دے۔
اس قانون کی خلاف ورزی کے مرتکب افراد کے خلاف پولیس تعزیرات پاکستان کی دفعہ 188 کے تحت مقدمہ درج کرتی ہے۔ دفعہ 188 کے تحت گرفتار افراد کو زیادہ سے زیادہ چھ ماہ تک قید یا جرمانہ یا پھر یہ دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔‘

شیئر: