Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

سوشل میڈیا پر پابندیاں، ایرانی شہری مقامی ایپس کے استعمال پر مجبور

حکومت کا دعویٰ ہے کہ آٹھ کروڑ 90 لاکھ افراد ایرانی میسجنگ ایپس استعمال کر رہے ہیں
ایران میں کئی ماہ سے جاری احتجاج کے باعث حکام کی جانب سے انٹرنیٹ اور مغربی ایپس پر لگائی جانے والی پابندیوں کے بعد اب ایرانی شہری مقامی ایپس کو استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔
ایران کے لوگ فیس بک، یوٹیوب اور ٹوئٹر جیسی ایپس اور دیگر ممنوعہ ویب سائٹس تک رسائی کے لیے وی پی این استعمال کرنے کے عادی ہیں۔ تاہم حکام احتجاج کے دوران انٹرنیٹ پر مکمل پابندی عائد کر دیتے تھے۔
اب بہت سے لوگوں نے نیویگیشن کے لیے ’نشان‘ اور کار رائڈنگ سروس کے لیے ’سنیپ‘ جیسی ایپس کا ستعمال شروع کر دیا ہے جن کی منظوری حکومت نے دی ہے۔
ایرانی حکومت کا دعویٰ ہے کہ آٹھ کروڑ 90 لاکھ افراد بیل، ایٹا، روبیکا اور سرووش جیسی ایرانی میسجنگ ایپس استعمال کر رہے ہیں، تاہم ہر کوئی ان ایپس کا شوقین نہیں۔
تہران کے ایک رہائشی منصور روگھانی نے کہا کہ ’جن موضوعات پر میں اور میرے دوست بات کرنا چاہتے ہیں وہ ایرانی پلیٹ فارمز پر مہیا نہیں ہیں۔‘
میونسپیلٹی کے ایک سابق ملازم کا کہنا ہے کہ ’میں وی پی این کے ذریعے ٹیلی گرام، واٹس ایپ اور انسٹاگرام استعمال کرتا ہوں اور میں نے مقامی ایپس انسٹال نہیں کی ہیں۔‘
گذشتہ برس 22 سالہ لڑکی مہسا امینی کی پولیس حراست میں ہلاکت کے بعد حکومت نے انسٹا گرام اور واٹس ایپ سمیت بہت سی دیگر مغربی ایپس پر پابندی لگا دی تھی۔
گذشتہ ماہ ٹیلی کمیونیکیشن کے وزیر نے کہا تھا کہ ’کوئی انٹرنیٹ پر پابندی نہیں لگانا چاہتا اور اگر مغربی کمپنیاں ایران میں اپنے نمائندہ دفاتر قائم کر لیں تو انٹرنیشنل پلیٹ فارمز کو اجازت دی جا سکتی ہے۔‘
تاہم فیس بک، واٹس ایپ اور انسٹاگرام کی مالک کمپنی میٹا نے کہا تھا کہ اس کا ایران میں دفاتر قائم کرنے کا کوئی ارادہ نہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ حکومت کی جانب سے منظور شدہ ایپس استعمال کرنے کو ایرانی صارفین محفوظ نہیں سمجھتے۔

شیئر: