Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حکومت کرپٹو کرنسی کو قانونی قرار کیوں نہیں دینا چاہتی؟

ظفر پراچہ نے کہا کہ کرپٹو کرنسی میں کئی طرح کے مسائل ہیں۔ (فوٹو: اے ایف پی)
دنیا کے کئی بڑے ممالک کی طرح پاکستان میں بھی کرپٹو کرنسی کا موضوع ابھی تک متنازع چلا آ رہا ہے۔
ملک میں ایسے افراد کی تعداد بھی کم نہیں جو کرپٹو کرنسی میں کم یا زیادہ سرمایہ کاری کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔
دوسری جانب دنیا میں اس ڈیجیٹل کرنسی کے مستقبل کے حوالے سے جہاں کچھ مثبت امیدیں پائی جاتی ہیں وہیں اس سے جُڑے خدشات بھی کم نہیں ہیں۔
پاکستان میں کچھ سوشل میڈیا ایکٹوسٹس اس کرنسی کی حمایت کرتے ہیں اور وہ اسے قانونی قرار دینے کی مہم چلاتے رہے ہیں لیکن حکومت اور سٹیٹ بینک آف پاکستان ان کا یہ مطالبہ ماننے سے گریزاں ہے۔

دہشت گردی میں استعمال کا خدشہ ہے

بدھ کو پاکستان کی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ و محصولات میں ایک بار پھر کرپٹو کرنسی زیربحث رہی جس میں اس کرنسی کو قانونی قرار دینے کی پُرزور الفاظ میں مخالفت کی گئی ہے۔
قائمہ کمیٹی کے ارکان نے کہا کہ ’کرپٹو کرنسی ممکنہ طور پر دہشت گردی کے مقاصد میں استعمال ہو سکتی ہے، اس لیے اس مشکوک کرنسی کو قانونی قرار نہیں دے سکتے۔
واضح رہے کہ پاکستان کا نام 2018 کے بعد سے دنیا بھر میں منی لانڈرنگ کی روک تھام کے لیے سرگرم فنانشل ایکشن ٹاسک فورس (ایف اے ٹی ایف) کی گرے لسٹ میں ڈال دیا گیا تھا اور ایف اے ٹی ایف کا مطالبہ تھا کہ مالی معاملات کو شفاف بنایا جائے۔
 پھر اکتوبر 2021 میں ایف اے ٹی ایف نے پاکستان کو ’گرے لسٹ‘ سے نکال دیا تھا۔

وزیر مملکت برائے خزانہ ڈاکٹر عائشہ غوث نے کرپٹو کرنسی کے بارے میں قائمہ کمیٹی کو بریفنگ دی۔ (فوٹو: ٹوئٹر)

ایکسچیج کمپنیز آف پاکستان کے سیکریٹری ظفر پراچہ حکومت کی جانب سے کرپٹو کرنسی کو قانونی قرار نہ دینے کے فیصلے کو درست سمجھتے ہیں۔

کوئی نہیں جانتا کہ اس کرنسی کے پیچھے کون ہے

ظفر پراچہ نے اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’کرپٹو کرنسی میں کئی طرح کے مسائل ہیں۔ جو عام کرنسی نوٹ ہوتے ہیں ان کے پیچھے ملک کھڑا ہوتا ہے اور یہاں ان پر یہ جملہ لکھا ہوتا ہے کہ ’حامل ہٰذا کو مطالبہ پر ادا کرے گا۔‘
دوسری جانب یہ کرپٹو کرنسی ایک ورچوئل کرنسی ہے۔ کسی کو علم ہی نہیں کہ اس کے پیچھے کون ہے۔ یہ ایک سافٹ ویئر کی طرح کی چیز ہے۔ اس کی ذمہ داری لینے والی کوئی کمپنی یا اس کی معلومات بھی نہیں ہیں۔‘
انہوں نے کرپٹو کرنسی کی قدر میں آنے والے بڑے اتار چڑھاؤ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ’دیکھیے کرنسیوں کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا ہے۔ یہ یکدم بہت زیادہ نہیں ہوتا لیکن کرپٹو کرنسی کا معاملہ عجیب ہے۔ یہ اچانک 10 سے 50 فیصد یا اس سے زیادہ اوپر چلی جاتی اور اسی طرح ایک دم بہت زیادہ نیچے بھی آ جاتی ہے۔‘
اس کرنسی سے اتنے زیادہ خدشات جڑے ہوئے ہیں تو پاکستان سے اس میں سرمایہ کاری کیوں کی جا رہی ہے؟ اس سوال کے جواب میں ظفر پراچہ نے بتایا کہ ’اس پر چونکہ کوئی چیک نہیں ہے۔ پاکستان سمیت کسی بھی حکومت کے پاس ایسا میکنزم نہیں ہے کہ جس کی مدد سے کرپٹو کرنسی کا لین دین مکمل طور پر بند کیا جا سکے۔‘

کرپٹو کرنسی قانونی قرار دینے کا رِسک نہیں لیا جائے گا

ظفر پراچہ کرپٹو کرنسی کے مستقبل سے متعلق بہت پرامید نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ’مجھے نہیں لگتا کہ یہ مستقبل قریب میں پاکستان میں قانونی ہو سکتی ہے کیونکہ پاکستان ایک کمزور معیشت ہے۔ اس پر جو ایف اے ٹی ایف اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کا دباؤ ہے اور اس دباؤ کی وجوہات زیادہ تر عالمی سیاست سے منسلک ہیں۔ اس لیے یہاں اس کرنسی کو قانونی قرار دینے کا خطرہ مول نہیں لیا جائے گا۔‘

سٹیٹ بینک کا انتباہی پبلک نوٹس

دوسری جانب سٹیٹ بینک آف پاکستان حکومت کی جانب سے کرپٹو کرنسی کے حوالے سے واضح قانون سازی یا پالیسی کا منتظر ہے۔

سٹیٹ بینک کے نوٹس میں ورچوئل کرنسیوں سے جڑے ممکنہ خطرات سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔ (فوٹو: اے ایف پی)

ابھی قائمہ کمیٹی کی سطح پر یہ معاملہ زیرِ بحث ہے۔ اب تک سٹیٹ بینک نے تمام بینکوں کو کرپٹو کرنسی میں لین دین کی اجازت نہیں دی ہے۔
سٹیٹ بینک کی ویب سائٹ پر ایک پبلک نوٹس بھی موجود ہے جس میں شہریوں کو ورچوئل کرنسیوں کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے۔
نوٹس کے مطابق ’سٹیٹ بینک نے کسی کو بِٹ کوئن، لائٹ کوئن، پاک کوئن، ون کوئن، داس کوئن، پے ڈائمنڈ یا اس طرح کی دیگر ورچوئل کرنسیوں کے لین دین، ان میں سرمایہ کاری یا ان کے تبادلے کی اجازت نہیں دی ہے اور نہ ہی سٹیٹ بینک اس عمل کو قانونی سمجھتا ہے۔‘
نوٹس میں ورچوئل کرنسیوں سے جڑے ممکنہ خطرات سے بھی آگاہ کیا گیا ہے۔
اردو نیوز نے کرپٹو کرنسی کے بارے رائے کے لیے معاشی امور کے ماہر ڈاکٹر قیصر بنگالی سے رابطہ کیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’اس کرنسی کے بارے میں بات چیت تو سننے میں آتی رہتی ہے لیکن میں نے اس پر کبھی کام نہیں کیا۔ مجھے علم ہی نہیں کہ یہ ہوتی کیا ہے، اس لیے اس پر کچھ کہہ نہیں سکتا۔‘

کرپٹو کرنسی کے حامی کیا کہتے ہیں؟

کرپٹو کرنسی میں سرمایہ کاری کے علاوہ اس کے رجحانات پر گہری نظر رکھنے والے لاہور کے نوجوان مبشر احمد نے اردو نیوز کے رابطہ کرنے پر بتایا کہ ’کرپٹو کرنسی نے موجودہ بینکنگ سسٹم کو کافی سیریس چیلنجز دیے ہیں۔ رائج بینکنگ سسٹم اس کے خلاف ایسے ہی مزاحمت کر رہا ہے جیسے کوئی بھی روایتی نظام کسی نئے رجحان کی مخالفت کرتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’جب کرنسی نوٹ پہلی بار آئے تھے تو صدیوں سے رائج بارٹر سسٹم (اشیاء کے تبادلے کے نظام) کے عادی افراد نے اس کی مخالفت کی تھی‘

’رائج بینکنگ کے نقائص کرپٹو کی مقبولیت کی وجہ‘

مبشر احمد نے ایک سوال کے جواب میں کہا کہ ’کرپٹو کرنسی کی صحیح سمجھ اس وقت آ سکتی جب آپ اس کا موازنہ موجودہ بینکنگ سسٹم سے کریں گے۔ موجودہ بینکنگ سسٹم کے نقائص اس کی مقبولیت کی وجہ ہیں، یہ صرف سٹے بازی کی بنیاد پر مقبول نہیں ہے۔‘
’دنیا کا بینکنگ سسٹم ایک عجیب انداز میں بنا ہوا ہے۔ لوگ اب شہری آزادیوں کے مطالبوں کے ساتھ ساتھ ہر طرح کی چیز واضح دیکھنا چاہتے ہیں۔ بینکوں میں صارف سے پیسے لے کر وہ سرمائے کے ساتھ جو کرتے ہیں، وہ اتنی خفیہ شرائط اور ضوابط میں بندھا ہوتا ہے، عام صارف کو اس کے بارے میں علم ہی نہیں ہوتا کہ اس کے پیسے کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔‘
’روایتی بینک آپ کے پیسے کہاں لگا رہا ہے، یہ آپ نہیں جانتے لیکن کرپٹو کی بیش تر شکلوں میں ٹرانزیکشن کو ہر شخص دیکھ سکتا ہے اور اس کی توثیق کئی لوگ کرتے ہیں جبکہ بینکنگ سسٹم میں یہ طاقت ایک ہی جگہ مرکوز ہوتی ہے۔‘

رائج بینکنگ سسٹم میں صارف کو بہت کم علم ہوتا ہے کہ اس کا سرمایہ کہاں استعمال ہو رہا ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

کرپٹو کرنسی کی قدر میں کمی یا زیادتی کا پیمانہ کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ’کرپٹو کرنسی مختلف طرح سے اپنی قدر بڑھاتی ہیں۔ کئی پیچیدگیاں حل کرنے میں یہ مدد دیتی جیسا کہ میتھ سے متعلق پیچیدہ مسائل۔ جب ایسے مسائل کئی کمپیوٹرز کی مدد سے حل ہوتے ہیں تو آپ کو انعام کے طور پر کوائن ملتا ہے جس کی ایک قدر ہوتی۔ پھر لوگ آپس میں طے کر لیتے ہیں کہ اس ویلیو کا لین دین یا تبادلہ کیا جائے۔‘
’اسی طرح کچھ اپلیکیشنز بنا کر ان کے ساتھ کرپٹو کرنسی کی قدر جوڑی جاتی ہے۔ ان ایپس سے جتنے مسائل حل ہوتے ہیں یا جتنے صارفین کو فائدہ ہوتا ہے، اس کے عوض میں کوائن کی قدر بڑھ جاتی ہے۔اس کے علاوہ مختلف گیمز اور اب ڈیجیٹل آرٹ سمیت بھی ایسی چیزیں ہیں جن میں آپ کی پرفارمنس اس سے جڑے کوائن کی قدر کا تعین کرتی ہے۔‘

’کرپٹو کو سمجھے بغیر فراڈ قرار دیا جا رہا ہے‘

مبشر احمد نے سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان کا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں پرانے طرز کے سیاست دان یا وزراء بیٹھے ہوئے ہیں۔ کرپٹو کو ابھی تک امریکہ کے سینیٹرز بھی نہیں سمجھ پائے۔ یہاں کے وزیر اور سٹیٹ بینک کے ملازم بھی اس کو سمجھے بغیر مکمل فراڈ کہہ رہے ہیں جو کہ عجیب ہے۔‘

کرپٹو کرنسی کی قدر میں اضافے یا کمی کے مختلف وجوہات ہوتی ہیں جن کا تعلق ٹیکنالوجی سے ہے (فائل فوٹو: اے ایف پی)

’امریکہ سمیت کئی ملکوں میں لوگ اس کا لین دین کر رہے۔ فرانس کے بارے میں میں خود جانتا ہوں۔ کچھ ممالک کے بینکوں میں تو آپ کرپٹو کی شکل میں اپنے اثاثے بھی رکھ سکتے ہیں۔‘
’یہ حکومت پہلے ہی لوگوں کو ملازمتیں دینے کے قابل نہیں۔ اب لوگ کرپٹو کے ذریعے ٹریڈنگ کی طرف آ رہے ہیں تو آپ اس کے بارے میں سطحی بیانات دے رہے ہیں۔‘
’یہ لوگوں کو جینے ہی نہیں دے رہے۔‘

پابندی کی تجویز پر سوشل میڈیا کا ردعمل

کرپٹو کرنسی کے بارے میں پاکستانی سوشل میڈیا پر بھی صارفین اپنی رائے کا اظہار کرتے رہے ہیں۔ بدھ کو سینیٹ کی قائمہ کمیٹی کے بیان کے بعد ٹوئٹر پر ’کرپٹو پاکستان‘ کے نام سے موجود ایک ہینڈل سے اس فیصلے پر تنقید کی گئی۔
کرپٹو پاکستان‘ نے قائمہ کمیٹی کے بیان پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا کہ ’حکام ایف اے ٹی ایف اور آئی ایم ایف کے نام پر پاکستان کو برباد کر رہے ہیں۔ یہ ہر چیز کی ذمہ داری آئی ایم ایف اور ایف اے ٹی ایف پر ڈال دیتے ہیں۔ خدا ملک اور عام آدمی کے لیے ان کے دل نرم کرے۔‘
معراج نامی ٹوئٹر ہینڈل نے لکھا کہ ’میں شرط لگا سکتا ہوں کہ وزیر مملکت جنہوں اس پر پابندی کی تجویز دی ہے، وہ کرپٹو کرنسی کے بارے میں، کچھ بھی نہیں جانتیں۔ میں یہ چاہتا ہوں کہ وہ اس بارے میں پریس کانفرنس کریں اور اس کے بعد سوال جواب کا کھلا سیشن رکھیں۔‘

کرپٹو کرنسی کیا ہے؟

کرپٹو کرنسی الیکٹرانک شکل میں دستیاب ایسی کرنسی ہے جو کاغذی حیثیت نہیں رکھتی اور کسی مرکزی ادارے کے کنٹرول میں نہیں ہوتی۔
تقریباً تمام ہی کرپٹو کرنسیاں ’بلاک چین ٹیکنالوجی‘ کو استعمال کر رہی ہوتی ہیں۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ لین دین کی کسی بھی ٹرانزیکشن کو کوئی ایک مرکزی ادارہ کنفرم نہیں کرتا، بلکہ ہر ایک ٹرانزیکشن کو مختلف کمپیوٹرز (جنہیں نوڈز کہا جاتا ہے) کے نیٹ ورک میں بھیجا جاتا ہے جو اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ یوں جب کوئی بھی ٹرانزیکشن ایک جگہ کی بجائے مختلف جگہوں سے تصدیق ہو کر جاتی ہے تو اس میں سکیورٹی کا درجہ بہت بڑھ جاتا ہے۔
ہر ایک ٹرانزیکشن کی تصدیق کے عمل کو مائننگ کہتے ہیں جس کے بعد وہ بلاک چین کے نظام کا حصہ بن جاتی ہے۔ کرپٹو کرنسی کے تبادلے کے لیے کی جانے والی اس مائننگ کے بدلے میں ایک معمولی فیس ملتی ہے جس سے نئے کوئنز جنم لیتے ہیں۔

شیئر: