عرب نیوز سے بات کرنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق سعودی عرب کی بڑھتی ہوئی اتھارٹی اور علاقائی مسائل کے ’گھر میں حل‘ کے لیے اس کی حمایت نے تعاون کو بڑھانے میں کردار ادا کیا ہے۔
یہ سربراہی اجلاس سوڈان میں ایک مہلک تنازعے اور انسانی ہنگامی صورتحال کے دوران ہو رہا ہے۔ اسرائیل اور فلسطینیوں کے درمیان تازہ کشیدگی کو بھی بات چیت میں نمایاں طور پر سامنے رکھنے کی توقع ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ یمن میں جنگ کے حل کے حوالے سے پیش رفت سمیت کچھ مثبت تبدیلیاں آئی ہیں۔
سنہ 2011 میں معطلی کے بعد یہ عرب لیگ کا پہلا سربراہی اجلاس ہے جس میں شام کی قیادت شرکت کر رہی ہے۔ عرب لیگ نے حال ہی میں بشار الاسد کے زیرِقیادت ملک کو اتحاد میں دوبارہ شامل کیا ہے۔
مجموعی طور پر اس سربراہی اجلاس کے حوالے سے ایک اُمید پائی جا رہی ہے کہ اس بار معاملہ صرف ’رسمی‘ نہیں ہو گا۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ برسوں کی طرح یہ محض ایک ’رسمی‘ اجلاس یا ’ملاقات برائے ملاقات‘ نہیں ہو گی بلکہ ایک عملی اور فعال اجتماع ہو گا جس میں ایک سے زیادہ علاقائی مسائل پر قیادتوں کے درمیان بات چیت ہو گی۔
اردنی قانون ساز و سیاسی تجزیہ کار عمر ایاسرہ نے عرب نیوز کو بتایا ’سنہ 1945 میں اپنے قیام کے بعد سے تمام پچھلی عرب لیگ کے سربراہی اجلاس علاقائی بحرانوں اور اتحاد کے اندر بہت زیادہ اختلاف رائے کی وجہ سے اس حد تک متاثر ہوئے کہ ان میں سے بہت سے اجلاس یا تو منسوخ کر دیے گئے تھے یا ان کے کوئی ٹھوس نتائج برآمد نہیں ہوئے تھے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’لیکن جدہ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کچھ مختلف معلوم ہوتی ہے۔ اس سے پہلے سعودی قیادت میں متعدد عملی اقدامات کیے گئے جن کا مقصد سب سے پہلے اجلاس کے لیے مثبت بنیادیں استوار کرنا اور اس کے نتیجے میں علاقائی بحرانوں پر ایک متفقہ عرب پوزیشن اور ان سے نمٹنے کے لیے ضروری اجتماعی فریم ورک بنانا ہے۔‘
عمر ایاسرہ کے مطابق یہ سعودی عرب کی علاقائی اتھارٹی کی طرف بڑھنا، عرب ریاستوں کے درمیان تناؤ کو کم کرنے کی خواہش ہے جس کا مقصد عالمی سطح پر ایک متحدہ عرب محاذ کو مضبوط بنانا ہے جس نے اس سربراہی اجلاس کو پچھلے اجلاسوں سے مختلف کر دیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ’علاقائی بحرانوں کے حل کے لیے سعودی قیادت میں ایک منصوبہ جدہ میں ہونے والی سربراہی کانفرنس کا موضوع ہو گا۔‘
جیو پولیٹیکل تجزیہ کار عامر سبیلہ نے بھی عمر ایاسرہ کی بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ جدہ میں سربراہی اجلاس کے انعقاد کے سادہ عمل نے اس موقعے کو ’اہم، دلکش اور فائدہ مند‘ بنا دیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ’سعودی عرب اس وقت تمام مسائل کے حل کے لیے کوشاں ہے۔‘
عامر سبیلہ کے مطابق سعودی مملکت اس وقت علاقائی مسائل کے حل کے لیے ’زبردست‘ سفارتی کوششیں کر رہی ہے اور عرب لیگ کے سربراہی اجلاس سے قبل عربوں میں اتفاق رائے پیدا کرنے کی کوششوں نے کانفرنس کا ایجنڈا پہلے ہی طے کر دیا تھا۔
اردن کے سابق وزیر اطلاعات سمیع میتاح عرب لیگ کے اجلاس کے نتائج کے حوالے سے زیادہ پُرامید نہیں تاہم انہوں نے کہا کہ یہ گزشتہ سربراہی کانفرنس کے مقابلے میں مختلف ہے کیونکہ اس میں شام کو شامل کیا جانا اہم ہے۔
عرب لیگ کے 22 رکن ملکوں نے رواں ماہ کے آغاز میں شام کو اتحاد میں دوبارہ شامل کرنے پر اتفاق کیا تھا جس کی رُکنیت کو 12 برس معطل رکھا گیا تھا۔
شام میں سنہ 2011 میں بشار الاسد کی حکومت کی جانب سے ملک بھر میں شروع کیے کریک ڈاؤن کے بعد خانہ جنگی کا آغاز ہوا تھا۔
عرب لیگ کے سربراہی اجلاس میں شام کے تنازعے کے حل کے لیے منصوبہ سامنے لانا بھی ایجنڈے پر ہے۔