زمان پارک لاہور میں سناٹا: جیسے طوفان کے بعد ٹھہراؤ ہو
زمان پارک لاہور میں سناٹا: جیسے طوفان کے بعد ٹھہراؤ ہو
پیر 22 مئی 2023 18:38
رائے شاہنواز -اردو نیوز، لاہور
ایچی سن کالج کی دیوار سے دھرم پورہ نہر کے پل تک یہ سیاسی میلہ 7 مہینے جاری رہا۔ (فوٹو: اردو نیوز)
لاہور کا علاقہ زمان پارک اب صرف اسی وجہ سے مشہور ہے کہ یہاں چئیرمین تحریک انصاف عمران خان کا گھر ہے۔ ویسے تو ان کا گھر پچھلے 50 سال سے یہیں ہے لیکن جو شہرت پچھلے سات مہینوں سے اس علاقے کو ملی اس کی بھی ایک الگ کہانی ہے۔
گذشتہ برس نومبر کے مہینے میں جب لانگ مارچ کے دوران وزیر آباد کے قریب عمران خان فائرنگ کے نتیجے میں زخمی ہوئی تو اس کے بعد شوکت خانم ہسپتال سے علاج کے بعد زمان پارک منتقل ہوگئے۔
اس سے پہلے گذشتہ کئی سالوں سے وہ اسلام آباد بنی گالہ میں اپنی رہائش گاہ پر سکونت اختیار کر چکے تھے۔
زمان پارک میں ان کے رہائش اختیار کرنے کے فیصلے نے اس علاقے کو ایک سیاسی میلے کی شکل دے دی۔ کینال روڈ پر کارکنوں نے خیمے نصب کر لیے۔
ٹکٹوں کے امیدوار نت نئے آئیڈیاز کے ساتھ ایک دوسرے کو مات دینے کے لیے اشتہار ایسے لگاتے کہ مقابلہ صاف دکھائی دیتا۔
ایچی سن کالج کی دیوار سے دھرم پورہ نہر کے پل تک یہ سیاسی میلہ 7 مہینے جاری رہا۔ جن لوگوں کے گھر کینال روڈ پر مغل پورہ، غازی آباد اور دیگر سوسائیٹیز جو زمان پارک کے بعد آتی ہیں، میں ان کے لیے یہ مہینے بھی ایک مختلف تجربہ تھا۔
کیونکہ سیاسی میلے کے وجہ سے اس جگہ سے گزرنا ایک امتحان تھا اور کم از ایک ایک گھنٹہ صرف زمان پارک کے آگے سے گزرنے کے درکار تھا۔
پیر 22 مئی کو جب پولیس نے گزشتہ کئی دن کے واقعات کے بعد زمان پارک کی ناکہ بندی ختم کی اور کینال روڈ کو عام ٹریفک کے لئے کھولا تھا تو ایک بڑے لمبے عرصے کے بعد پرانے زمان پارک کی شکل دیکھنے کو ملی۔
کارکنوں کے لگائے ٹینٹ اکھاڑ کے عارضی رہائش گاہیں بھی ختم کر دی گئی تھیں۔ ابھی کہیں کہی بلدیہ کے ملازمین صفائی ستھرائی میں مصروف تھے۔ گذشتہ تین دنوں سے ضلعی انتظامیہ کے لوگ زمان پارک کو بحال کرنے میں مصروف ہیں۔
گرین بیلٹ جس کو عارضی خیمہ بستی نے بنجر کر دیا تھا وہاں ایک مرتبہ پھر نئے درخت اور پودے لگائے جا رہے ہیں۔ کارکنوں مکمل طور پر زمان پارک سے غائب ہو چکے ہیں چند ایک پولیس اہلکار عمران خان کے گھر کے باہر پہرہ دے رہے ہیں۔
فضا میں عجیب سی خاموشی ہے جیسے کسی طوفان کے گزرنے کے بعد کی موسم میں ٹھہراؤ آگیا ہو۔ نہ تو پولیس اہلکار کے چہروں پر ایسا کوئی تاثر ہے کہ کہیں سے کارکن نہ نکل آئیں نہ پی ایچ اے کے ملازمین کسی فکر میں دکھائی دیتے ہیں۔
کیونکہ پچھلے ساتھ مہینوں میں اسی جگہ پر کئی پولیس کی گاڑیاں اور کئی پی ایچ اے کے پانی کے ٹینکر جلائے گئے اور سرکاری عملہ زمان پارک میں ڈیوٹی پر اضطراب کا شکار ہو جاتا ہے۔
ایسے بھی کئی واقعات ہوئے کہ سرکاری ملازمین چاہے وہ پولیس کے اہلکار ہوں یا کسی اور ادارے کے انہوں نے زمان پارک ڈیوٹی دینے سے صاف انکار کر دیا۔ جن کی پیشیاں ابھی بھی چل رہی ہیں۔ عمران خان اب بھی اندر موجود ہیں لیکن ان کو ملنے کے لئے آنے والوں کی تعداد اب نہ ہونے کے برابر ہے۔
چند وکلا اور پیر کے روز پارٹی رہنما شفقت محمود نے عمران خان سے ملاقات کی۔ گذشتہ کچھ روز سے عمران خان کے ملاقاتی صرف یہی رہے۔
پولیس نے تحریک انصاف کے کارکنوں کی جانب سے لگائی گئی تمام تجاوزات تقریبا ہٹا دی ہیں۔ تاہم سکیورٹی کے لئے بنائے گئے مورچے اور گھر کے بیرونی طرف بنائی گئی لوہے کی دیوار کو ہٹانے کے بجائے پولیس نے اور مضبوط کر دیا ہے۔
جو اس بات کا واضع پیغام ہے کہ عمران خان کی سکیورٹی پر کمپرومائز نہیں کیا گیا اس سے یہ بھی صاف ظاہر ہو رہا ہے کہ اب پولیس زمان پارک کے باہر کارکنوں کو دوبارہ مورچہ زن ہونے کا موقع فراہم نہیں کرے گی۔