Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

حق دو تحریک: سرگرمیوں میں کمی لیکن مقبولیت ’اب بھی برقرار‘

گوادر میں پینے کے پانی کا مسئلہ ایک بحران کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ فائل فوٹو: روئٹرز
بلوچستان کے ساحلی شہر گوادر میں دو سال قبل ابھرنے والی احتجاجی تحریک 'حق دو تحریک 'کے سربراہ مولانا ہدایت الرحمان بلوچ کو چار ماہ سے زائد کی قید کے بعد گزشتہ دنوں سپریم کورٹ سے ضمانت ملنے کے بعد رہا کر دیا گیا۔
سربراہ اور رہنماؤں کی گرفتاری کے بعد اس تحریک کی سرگرمیوں میں کمی دیکھی گئی تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گوادر میں حق دو تحریک کی مقبولیت اب بھی برقرار ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان بلوچ بھی کہتے ہیں کہ گرفتاری سے ان کی تحریک کمزور ہوئی اور نہ ہی کارکن مایوس ہوئے ہیں۔
اردو نیوز سے بات کرتے ہوئے مولانا نے حکومت کی جانب سے مطالبات پر عملدرآمد میں عدم دلچسپی پر تنقید کرتے ہوئے دوبارہ احتجاجی تحریک چلانے کا عندیہ دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ 'دوبارہ ریلیاں نکالیں گے اور ضرورت ہوئی تو دھرنے بھی دیں گے، ہم ماہی گیروں کو حقوق ملنے اور مطالبات پر مکمل عمل درآمد ہونے تک چھین سے نہیں بیٹھیں گے۔'
حق دو تحریک 2021ء میں مقامی آبادی کے تحفظات اور مطالبات کو حل کرنے کے لیے ابھری تھی اور خواتین کی قابل ذکر شمولیت کے ساتھ بڑی احتجاجی ریلیوں اور دھرنے کا انعقاد کرکے قومی منظر نامے میں توجہ حاصل کی۔
مولانا ہدایت الرحمان نے نومبر 2021ء میں پہلی مرتبہ گوادر کے پورٹ روڈ پر 19 مطالبات کے لیے دھرنا شروع کیا۔ اس دوران ریلیوں اور دھرنے میں لوگوں کی شمولیت کو تاریخی قرار دیا گیا۔ حق دو تحریک نے بلوچستان کے قبائلی اور قدامت پسند معاشرے کے باوجود ہزاروں کی تعداد میں خواتین مظاہرین کو تعداد میں سڑکوں پر لا کر اپنی مقبولیت ثابت کی۔
دسمبر 2021ء میں وزیراعلیٰ بلوچستان عبدالقدوس بزنجو کو خود گوادر جاکر مطالبات پر عملدرآمد کیلیے مظاہرین کے ساتھ تحریری معاہدہ کرکے 32 روز سے جاری دھرنا ختم کرانا پڑا۔
اکتوبر 2022ء میں مولانا ہدایت الرحمان نے دس ماہ گزرنے کے باوجود مطالبات پر عمل درآمد نہ ہونے پر دوبارہ دھرنا دیا ۔ 56 روزکے احتجاج کے بعد’حق دو تحریک‘ کی جانب سے حکومت پر دباؤ اُس وقت بڑھا جب مظاہرین نے گوادر پورٹ کو جانے والے تمام راستے بند کر دیے جس سے پورٹ پر کام کرنےوالے چینی اہلکار بھی محصور ہو کر رہ گئے۔
مذاکرات کی ناکامی کے بعد پولیس کی جانب سے 26 دسمبر 2022ء کو مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کیا گیا تو پرتشدد احتجاج شروع ہوا جس میں ایک پولیس اہلکار کی جان چلی گئی جبکہ کئی سرکاری و املاک کو بھی نقصان پہنچایا گیا۔ حکومت نے حق دو تحریک کے سو سے زائد کارکنوں اور رہنماؤں کو گرفتار کرکے ان کے خلاف 17 فوجداری مقدامات قائم کیے۔ مولانا ہدایت الرحمان چند روز کی روپوشی کے بعد جنوری 2023ء میں احاطہ عدالت سے اس وقت گرفتار کئے گئے جب وہ ضمانت حاصل کرنے پہنچے تھے۔

حق دو تحریک کے دھرنے میں ہزاروں بلوچ خواتین نے شرکت کی۔ فوٹو: سکرین گریب

18 مئی کو سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ کی جانب سے ضمانت ملنے کے بعد مولانا ہدایت الرحمان کو 23 مئی کو رہا کر دیا گیا۔ مولانا ہدایت الرحمان نے چار ماہ 10 دن قید می گزارے۔ اس دوران ان کی رہائی کے لیے گوادر میں مظاہرے بھی کیے گئے تاہم مجموعی طورپر حق دو تحریک کی سرگرمیاں متاثر دکھائی دیں۔
کیا حق دو تحریک اور مولانا ہدایت الرحمان کی عوامی حمایت یا مقبولیت میں کمی آئی ہے؟
حق دو تحریک اور مقامی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے گوادر کے تجزیہ کار ناصر سہرابی اس تاثر کی نفی کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک کی کی مقبولیت برقرار ہے بلکہ اس میں ہمدردی کا بھی اضافہ ہوا ہے۔ اس کا اندازہ رہائی کے بعد مولانا کے استقبال سے بھی لگایا جا سکتا ہے۔ جیل جانے اور مقدمات کا سامنا کرنے والوں سمیت ان کے حامیوں اور کارکنوں کی وابستگی برقرار ہے۔  
سہرابی کے بقول 'مولانا کی قید کی وجہ سے حق دو تحریک کی سرگرمیاں کم ضرور تھیں لیکن ختم نہیں ہوئیں۔ گاہے بگاہے انہوں نے ریلیوں اور احتجاج کی کوشش کی ۔اس عرصے میں حق دو تحریک کو اس بات کا ادراک ہواہوگا کہ وہ اب انہیں احتجاج کی صورت میں سختیوں کا بھی سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔'
بلوچستان کے صحافی وتجزیہ کار عدنان عامر کہتے ہیں کہ جیل میں جانے کی وجہ سے مولانا ہدایت الرحمان کو سیاسی فائدہ ہوا ہے اوران کی مقبولیت بڑھی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ یہ ساری تحریک مولانا کے گرد گھومتی ہے۔ مولانا ہدایت الرحمان اچھے مقرر بھی ہیں اور کارکنوں کو جوش دلاتے ہیں ان عدم موجودگی کی وجہ سے شاید تحریک کی سرگرمیاں بھی متاثر ہوئیں۔ان کے خیال میں رہائی کے بعد انتخابات قریب آنے کی وجہ سے مولانا ہدایت الرحمان مزید متحریک ہوں گے اور وہ اب لوگوں کی ہمدردیاں بھی حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔
رہائی کے بعد اردو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے مولانا ہدایت الرحمان کا کہنا تھا کہ تحریکوں میں آزمائش آتی ہے ، ساتھیوں کو پہلے دن سے قید و بند اور مشکلات کے لیے ذہنی طور پر تیار کیا تھااس لیے قید اور مقدمات سے ہماری تحریک کمزور نہیں ہوئی، ایک بھی کارکن ایسا نہیں جس نے لاتعلقی کا اظہار کیا ہو۔ رائے عامہ ہمارے حق میں ہے۔

مولانا ہدایت الرحمان نے قید کے دوران حکام کی جانب سے سختی کی شکایت بھی کی۔ فائل فوٹو: اے پی پی

ان کا کہنا تھا کہ حراست کے دوران حکومت نے ذہنی اذیت دینے کی بڑی کوشش کی، کبھی ملاقاتوں پر پابندی لگا دیتے کبھی کسی اور طریقے سے اذیت دیتے۔ 'مجھے، حسین واڈیلا اور باقی قیادت کو شدید سردی میں کوئٹہ منتقل کیا گیا جہاں ہمارے پاس گرم کپڑے تک نہیں تھے۔'
رہنما حق دو تحریک کا کہنا تھا کہ تمام مشکلات کے باوجود انہوں نے قید کے چار ماہ اطمینان سے گزارے، کتابیں پڑھیں اور لکھنے کا کام کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ'سی پیک کے قیدی 'کے عنوان سے کتاب لکھ رہے ہیں جس میں وہ سی پیک کے بعد گوادر کے لوگوں کو پیش آنے والے مسائل اور ان کے حل کے لیے اپنی اور گوادر کے لوگوں کی جدوجہد کا احاطہ کریں گے۔
حق دو تحریک کا اگلا لائحہ عمل
اپنی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے مولانا ہدایت الرحمان نے بتایا کہ ہمارے تمام مطالبات اور جدوجہد آئینی اور قانونی ہےہم قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنی جدوجہد اور احتجاجی تحریک جاری رکھیں گے۔ 'ہم ریلیاں بھی نکالیں گے اور ضرورت ہوئی تو دھرنے بھی دیں گے لیکن حکومت نے مسائل کے حل کی جانب پیشرفت کی تو اس کی نوبت نہیں آئی۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اب تک ہمارے مطالبات پر کوئی کام نہیں ہوا بلکہ اس کی مخالفت میں زیادہ کام ہوا۔ قید کے دوران ٹرالرز کو ساحل کے قریب بھی آنے دیا گیا جو پہلے کبھی نہیں ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ عمران خان کے دور میں مطالبات پر کام شروع ہوا تھا لیکن پی ڈی ایم کی حکومت آنے اور وفاقی کابینہ میں بلوچستان نیشنل پارٹی اور باپ پارٹی کی شمولیت کے بعد معاملات دوبارہ خراب ہونا شروع ہوگئے۔ بھتہ خوری، کرپشن اور ٹرالرنگ میں اضافہ ہوگیا ہے۔
حق دو تحریک کا آغاز کیسے ہوا؟
گوادر بحیرہ عرب میں دنیا کے بڑے سمندری تجارتی راستے پر واقع گہری بندرگاہ کا حامل شہر ہے جس کی اہمیت میں گزشتہ دو دہائیوں کے دوران ہمسائیہ ملک چین کی دلچسپی کے بعد اضافہ ہوا ہے۔یہ بندرگاہ چین کو بحیرہ عرب اور بحر ہند تک تزویراتی رسائی ،خلیجی ممالک سے تیل کی درآمدات سمیت جنوبی، مغربی اور وسط ایشیائی ممالک تک تجارت کے متبادل راستے فراہم کرتا ہے۔
پرویز مشرف دور میں بندرگاہ کی تعمیر کے بعد 2015ء سے چین گوادر میں پاک چین اقتصادی راہداری کے تحت اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کررہا ہے۔بڑے منصوبوں کے باوجود مقامی آبادی کی طرف سے بندرگاہ کی ترقی سے حاصل ہونے والے معاشی فوائد میں نظر انداز کرنے، پانی ،تعلیم اور صحت جیسی بنیادی سہولیات کی کمی، ماہی گیری اورسرحدی تجارت سمیت روزگار اور نقل و حرکت میں قدغنوں پر ناراضی کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ حالیہ برسوں میں یہاں شدت پسندوں نے چینی مفادات پر حملے بھی کئے ہیں۔

مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق سیکورٹی چیک پوسٹوں پر پوچھ گچھ سے لوگ تنگ آ گئے تھے۔ فائل فوٹو: حق دو تحریک ٹوئٹر

سنہ 2019ء میں گوادر کے پی سی ہوٹل پر حملے اور اگست 2021ء میں سڑک کے منصوبے پر کام کرنےو الے چینی انجینئرز پر خودکش دھماکے کے بعد پاکستانی حکومت نے گوادر میں سیکورٹی کے لیے کئی سخت اقدامات اٹھائے جس پر انہیں مقامی آبادی کی سخت مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔
اسی مخالفت کے نتیجے میں گوادر میں 2021ء کے اوائل میں حق دو تحریک کا آغاز ہواجس کی بنیاد مولانا ہدایت الرحمان نے رکھی۔ مولانا ہدایت الرحمان جماعت اسلامی بلوچستان کے سیکریٹری جنرل ہیں تاہم انہوں نے گوادر میں سیاست کے لیے جماعت اسلامی کی بجائے حق دو کے پلیٹ فارم کو ترجیح دی ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق مولانا ہدایت الرحمان ساحلی علاقے میں دہائیوں سے سرگرم جماعتوں کی جانب سے چھوڑے گئے سیاسی خلاء میں اپنے آپ کو مقبول رہنماء کے طور پر پیش کرنے میں کامیاب ہوئے ۔انہوں نے اربوں روپے کی سرمایہ کاری کے باوجود ساحلی شہر کی پسماندگی ،پانی و دیگر بنیادی سہولیات کی قلت ، سرحدی تجارت اور ماہی گیروں کی نقل و حرکت پر قدغنوں، سیکورٹی چیک پوسٹوں پر سختیوں، پوچھ گچھ جیسے مسائل پر کھل کر بولنے کی وجہ سے احتجاجی ریلیوں، مظاہروں اور دھرنوں کے ذریعے عوامی پذیرائی حاصل کی۔
مولانا ہدایت الرحمان کے مطابق 'گوادرکو حق دو تحریک 'کی بنیاد وہ تذلیل تھی جو ہر روز شہریوں کو گھر سے نکلتے ہوئے، بازار، سکول، ہسپتال یا کام پر جاتے ہوئے اٹھانی پڑتی تھی۔ سیکورٹی چیک پوسٹوں پر پوچھ گچھ، منفی رویوں سے لوگ تنگ آ گئے تھے۔ شہر میں پانی، بجلی اور روزگار کے مسائل پہلے سے ہی بہت تھے لیکن جب عزت نفس کی بات آگئی تو لوگ اٹھ کھڑے ہوئے اور اس نے ایک تحریک کی شکل اختیار کر لی۔
حق دو تحریک کے گوادر اور بلوچستان پر اثرات
سیاسی تجزیہ کار ناصر سہرابی کہتے ہیں کہ گوادر کی آبادی کی اکثریت کا انحصار سمندر میں مچھلیوں کے شکار یا پھر ہمسائیہ ملک ایران سے چھوٹے پیمانے پر ہونےوالی سرحدی تجارت پر ہے۔حالیہ برسوں میں سمندر میں سندھ سے آنےو الے بڑے بحری جہازوں اور ممنوعہ جالوں کی مدد سے مچھلیوں کے بڑے پیمانے پر شکار( ٹرالرنگ) کی وجہ سے چھوٹے ماہی گیروں جبکہ ایران سے تجارت میں رکاوٹوں کی وجہ سے سرحدی علاقوں کے لوگوں کا روزگار متاثرا ہوا۔اسی طرح چین کی جانب سے سرمایہ کاری کے بعد سیکورٹی کے مسائل پیدا ہوئے تو فورسز نے سختیاں شروع کر دیں۔ لوگ خوفزدہ ہو گئے۔

گوادر میں حکام امن و امن کی صورتحال کے باعث احتجاج کو ختم کرنے پر زور دیتے رہتے ہیں۔ فائل فوٹو: اے ایف پی

تجزیہ کار عدنان عامر کہتے ہیں کہ حق دو تحریک نے خوف اور ڈر کو ختم کیا اور وہ سیاسی اور سماجی طور پر متحرک ہوگئے ہیں۔وہ اپنے حقوق کے لیے بولنا شروع ہوگئے۔ گوادر کے لوگ سی پیک کے اہم اسٹیک ہولڈرز کے طور پر نظر انداز تھے اس تحریک کے نتیجے میں انہیں توجہ ، سیاسی و معاشی فوائد ملنے کی توقعات بڑھی ہیں۔
ناصر سہرابی کے نزدیک سیاسی اور سماجی کے ساتھ ساتھ اس تحریک کے معاشی اثرات بھی ہیں ۔ ان کے بقول پہلے ہر طرح کی سختی کو برداشت کیا جاتا تھا اب وہ ماحول نہیں، سیکورٹی اہلکاروں کے رویوں میں بہتری دیکھی گئی ہے، ماہی گیروں پر سختیوں میں کمی آئی ہے مخصوص اوقات میں شکار کے لیے جانے کی پابندی ختم ہوگئی ۔سرحدی تجارت اب ٹوکن کی بجائے صرف شناختی کارڈ پر ہوتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ حق دو تحریک نے ماہی گیروں کو توجہ کا مرکز بنایا ہے یہی وجہ ہے کہ وفاقی ،صوبائی حکومت اور پاک فوج کی جانب سے ماہی گیروں کے لیے ریلیف پیکیج کا اعلان کیا گیا ہے۔ انجن کی فراہمی ، ماہی گیروں کو مزدور کا درجہ دینے ، صحت کارڈ کے اجراء جیسے منصوبوں کا اعلان کیا گیا۔ سختیوں میں کمی اور مراعات ملنے کا کریڈٹ یقینا لوگ حق دو تحریک کو دیتے ہیں اسی وجہ سے ماہی گیروں اور سرحدی تجارت سے وابستہ لوگوں کی اکثریت حق دو تحریک سے وابستہ ہیں۔
تجزیہ کار کے بقول حق دو تحریک نے دہائیوں سے گوادر کی سیاست پر حاوی کلمتی خاندان سمیت اسٹیٹس کو کامیابی سے چیلنج کیا۔ بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے اپنی مقبولیت کو کیش کرتے ہوئے رکن صوبائی اسمبلی حمل کلمتی کی قیادت میں چار جماعتی اتحاد کو اکیلے شکست دی۔
ناصر سہرابی کا کہنا تھا کہ حق دو تحریک کی وجہ سے نہ صرف گوادر بلکہ پورے مکران ڈویژن میں نوجوانوں کی سیاست میں سرگرم شرکت نظر آرہی ہے ایسا اسی اور نوے کی دہائی کے بعد پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔انہوں نے نوجوان قیادت متعارف کرائی ہے جو ہر موقع پر سیاست پر حاوی رہنے والی پچھلی نسل کو چیلنج کرتے ہیں۔ اسی طرح مولانا ہدایت الرحمان نے خواتین کو بھی بھر پور طریقے سے اپنی تحریک کا حصہ بنایا ہے۔
مولانا ہدایت الرحمان بھی اس بات کا سہرا حق دو تحریک کو دیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب نوجوان سڑک کی سیاست چھوڑ کر پہاڑوں کی سیاست (عسکریت پسندی) کی طرف جارہے ہیں ہم نے نوجوانوں کو پارلیمانی جدوجہد کی جانب راغب کیا انہیں امید دلائی کہ حقوق کی جنگ پرامن بھی لڑی جا سکتی ہے۔ لیکن حکومت اور ریاست نے پرامن جدوجہد کرنے والوں کے خلاف طاقت کا استعمال کر کے انہیں منفی پیغام دیا۔

گزشتہ دو برس میں تحریک نے دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی متحرک ہونے پر مجبور کیا ہے۔ فوٹو: سکرین گریب

ناصر سہرابی کہتے ہیں کہ ایک مثبت پہلو یہ بھی ہے کہ جب بلوچستان میں ہر طرف سیاست الیکٹ ایبلز کے گرد نظر آ رہی ہے گوادر اور مکران کی سیاست میں ایک عام شخص حاوی ہوا ہے۔ حق دو تحریک کی جانب سے گوادر کے ساتھ ساتھ بلوچستان کے مسائل پر قوم پرستوں سے زیادہ مؤثر اور مضبوط انداز میں آواز اٹھانے پر قوم پرستوں کے لیے چیلنجز پیدا ہوئے ہیں وہ اپنی سرگرمیاں بڑھانے پر مجبور ہوئے ہیں۔
مولانا کے مخالفین کا کہنا ہے کہ حق دو تحریک کے رہنما کی نظریں اگلے عام انتخابات پر ہیں اور ان کی تحریک کا لوگوں کے حقوق سے کوئی تعلق نہیں تاہم حق دو کے حامی اس تاثر کو رد کرتے ہیں۔ حق دو کے کارکن حفیظ بلوچ کہتے ہیں کہ باقی جماعتوں نے لوگوں کو بد عنوانی اور مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ مولانا نے لوگوں کے حقیقی مسائل پر بات کی ہے۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ مولانا نے اپنی مقبولیت برقرار رکھی تو وہ عام انتخابات میں اپنے مخالفین کو مشکلات کا شکار کر سکتے ہیں۔

شیئر: