Sorry, you need to enable JavaScript to visit this website.

لاہور میں پیپلز پارٹی کے بینرز اور جھنڈے کتنے معنی خیز ہیں؟

لاہور اس وقت قومی سیاست کا مرکز بن چکا ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی جانب سے لاہور کی اکثر سڑکوں کو پارٹی کے  جھنڈوں، بینرز  اور رہنماؤں کی تصاویر سے سجایا گیا ہے۔ سیاسی گہما گہمی اپنے عروج پر ہے اور جوڑ توڑ کے ساتھ ساتھ نئے اتحاد کی تیاریاں بھی کی جا رہی ہیں۔ 
9 مئی کے واقعات کے بعد اکثر سیاسی جماعتیں متحرک ہوگئیں ہیں اور ہر سیاسی جماعت کی مرکزی قیادت کی نظریں تخت پنجاب پر جمی ہیں۔
ایک طرف جہانگیر ترین گروپ متحرک ہے تو دوسری طرف تحریک انصاف چھوڑنے والے رہنما بھی سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ اسی دوران گزشتہ کئی دنوں سے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری بھی لاہور میں ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔  
اب تک پنجاب میں مسلم لیگ نون اور تحریک انصاف کے مابین سیاسی اننگز کھیلی جا رہی تھی تاہم آصف علی زرداری کی آمد سے پنجاب کے سیاسی نقشے پر تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں۔
کئی سیاسی مبصرین اس نئی سیاسی گہما گہمی کو پیپلز پارٹی کے لیے ایک اہم ’موقع‘ قرار دے رہے ہیں۔
اردو نیوز نے اس حوالے سے پیپلزپارٹی کے رہنما اور پارٹی چیئرمین کے ترجمان ذوالفقار علی بدر، جو پارٹی کے ماضی کے سینیئر رہنما جہانگیر بدر کے صاحبزادے ہیں، سے گفتگو کی ہے۔
ذوالفقار علی بدر کہتے ہیں کہ پیپلز پارٹی کی پنجاب اور بالخصوص لاہور کی سرگرمیوں میں آیا ٹھہراؤ آصف زرداری کی آمد کے بعد ہلچل میں تبدیل ہو گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ’سیاست میں نشیب و فراز آتے رہتے ہیں، یہ ایک خالص سیاسی عمل ہے، اس میں کوئی نئی چیز نہیں ہے۔ ہماری سرگرمیاں اس سے قبل بھی جاری تھیں، لیکن اس دوران وقفہ آیا ہوا تھا۔ اب ہماری قیادت لاہور آئی ہے اور  ہم اس کو خوش آئند سمجھتے ہیں۔‘
انہوں نے کہا کہ ’پیپلر پارٹی لاہور میں بنی تھی اور اب اگر یہ لاہور آتی ہے تو اس پر کسی جماعت یا فرد کو اعتراض نہیں ہونا چاہیے۔‘

لاہور کی سڑکوں کو پی پی پی کے جھنڈوں اور بینرز سے سجایا گیا ہے۔ فوٹو: اردو نیوز

ذوالفقار بدر نے مزید کہا کہ آصف علی زرداری نے پہلے سے ہی لاہور بحریہ ٹاؤن میں ڈیرہ بنایا ہوا ہے لیکن وہ سیاسی سرگرمیوں کے لیے شہر کے اندر بھی اپنی ایک رہائش گاہ بنانا چاہتے ہیں تاکہ لوگوں کو آسانی ہو سکے۔
سیاسی مبصر اور تجزیہ کار اس نئی پیشرفت کو پنجاب میں پیپلز پارٹی  کے دوبارہ عروج حاصل کرنے کی کوششوں سے جوڑ رہے ہیں تاہم وہ پیپلز پارٹی کی بڑی کامیابیوں کے تاثر سے متفق نہیں ہیں۔ 
ٹیلی ویژن میزبان اجمل جامی موجودہ حالات میں آصف زرداری کی لاہور میں موجودگی کو معنی خیز قرار دے رہے ہیں۔ 
وہ کہتے ہیں کہ ’زرداری صاحب مفاہمت کے بادشاہ ہیں اور جوڑ توڑ کے ماہر ہیں۔ برے سے برے حالات میں سیاسی رابطے رکھنے میں ان کا کوئی ثانی نہیں ہے۔ نئے اتحاد اور مختلف گروہوں کی تشکیل کے دوران لاہور  میں وہ دیکھ رہے ہیں کہ ان کے حصے میں کیا آتا ہے۔
ڈان اخبار سے وابستہ سینیئر تجزیہ کار احسن رضا کے مطابق پیپلز پارٹی، تحریک انصاف کے خلاف جاری کریک ڈاؤن کو اپنے عروج کا ذریعہ بنا رہی ہے۔ 
وہ کہتے ہیں کہ ’جب اکتوبر 2011 میں مینار پاکستان جلسے سے پی ٹی آئی کے عروج کا سفر شروع ہوا تو اس وقت کسی حد تک نون لیگ سیاسی میدان میں اپنی موجودگی دکھا رہی تھی لیکن پیپلز پارٹی سیاسی منظر نامے سے بالکل غائب ہوگئی تھی۔ اب پی ٹی آئی کو دیوار سے لگایا جا رہا ہے تو پیپلز پارٹی اپنے روایتی حریف یعنی نون لیگ کے سامنے ایک بھرپور سیاسی قوت کی شکل میں آنا چاہتی ہے۔‘
اجمل جامی نے اس پہلو پر گفتگو کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ ’ان دنوں پیپلر پارٹی کا لاہور کو پارٹی کے جھنڈوں اور بینرز سے سجانے کا بظاہر مطلب یہی ہے کہ پارٹی کو یہاں مارجن نظر آرہا ہے جس کو وہ حاصل کرنا چاہتی ہے۔ 
تاہم وہ سمجھتے ہیں کہ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ لاہور میں پیپلز پارٹی ایک بڑا انقلاب لا رہی ہے۔ البتہ یہ ایک سیاسی کوشش ضرور ہے جس کے ذریعے پیپلز پارٹی اپنی کھوئی ہوئی ساکھ بحال کرانے کی کوشش کر رہی ہے۔

 سیاسی جماعتیں جوڑ توڑ کے ساتھ نئے اتحاد کی تیاریاں بھی کر رہی ہیں۔ فوٹو: پی پی پی

لاہور کے شہری مستنصر کو بھی اپنے ارد گرد ماحول میں کچھ نیا لگ رہا ہے۔ وہ بتاتے ہیں کہ جب وہ لاہور کی سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ہر جگہ پیپلز پارٹی کے جھنڈے اور پینا فلیکس نظر آتے ہیں جو ایک خاص پیغام دے رہے ہیں۔ 
’آج کل ہم میڈیا پر بھی زرداری اور بلاول کے حوالے سے بہت کچھ سن رہے ہیں لیکن جونہی ہم باہر سڑکوں پر نکلتے ہیں تو ہمیں ایسا لگتا ہے کہ  لاہور میں  پیپلز پارٹی کے لیے  پوزیشن مستحکم ہو رہی ہے جس کی وجہ سے انہیں اپنی سیاسی قوت دکھانےکے لیے موقع مل رہا ہے۔‘ 
مستنصر کا ماننا ہے کہ اس سے قبل لاہور کی سڑکوں پر صرف عمران خان کی تصویریں اور تحریک انصاف کے پوسٹرز نظر آتے تھے اور اس سے بھی پہلے ہر جگہ نون لیگ ہی چھائی ہوئی تھی۔
’ایک مخصوص وقت میں ان جھنڈوں اور بینرز کے نمودار ہونے کا مطلب  ہے کہ ان کا عوامی نفسیات سے ایک  خاص تعلق ہے۔‘
صحافی احسن رضا کے مطابق ’اس سے قبل بھی بلاول نے ملتان میں ڈیرے جمائے تھے لیکن ان کو خاطر خواہ کامیابی نہ مل سکی تھی اور اب بھی اگر دیکھا جائے تو آصف علی زرداری کو کوئی بڑی کامیابی نہیں ملی۔ جنوبی پنجاب سے صرف وہی لوگ ان کے ساتھ جڑ چکے ہیں جن کو تحریک انصاف نے ٹکٹ نہیں دیا تھا لہٰذا یہ کوئی بڑی کامیابی نہیں ہے۔‘
ان جھنڈوں اور بینرز کا عام آدمی پر اتنا اثر نہیں پڑتا البتہ ایک علاقے میں ایسی سرگرمی کے ذریعے سیاسی جماعت اپنی موجودگی کا احساس ضرور دلاتی ہے۔‘ 

سیاسی جماعتوں کی مرکزی قیادت تخت پنجاب پر نظریں جمائے بیٹھی ہے۔ فوٹو: اے ایف پی

اجمل جامی کے خیال میں حقیقی کامیابی شاید اب بھی پیپلز پارٹی سے فاصلے پر ہے۔ 
’میں تب حیرت میں مبتلا ہوں گا جب سینٹرل پنجاب یا اپر پنجاب سے لوگ پیپلز پارٹی میں شامل ہوں گے۔ پیپلز پارٹی تاحال جنوب تک محدود ہے جہاں الیکٹ ایبلز الیکشنز کے قریب اکثر اپنے آستانے بدلتے رہتے ہیں۔‘  
تحریک انصاف کے منحرف اراکین پر مشتمل جہانگیر ترین کے پیپلز پارٹی سے ممکنہ اتحاد کے متعلق ذوالفقار بدر کا کہنا ہے کہ ’اگر جہانگیر ترین یا دیگر سیاسی گروہ پیپلز پارٹی میں آنا چاہیں گے تو پارٹی کی سطح پر ان سب کا انفرادی کردار دیکھا جائے گا، تب ان کو جگہ دی جائے گی۔‘
ذوالفقار بدر نے مزید بتایا کہ ’پیپلز پارٹی میں جس نے بھی آنا ہے وہ پارٹی کے پلیٹ فارم سے فائدہ اٹھائے گا کیونکہ پارٹی بڑے نام بناتی ہے، بڑے نام خود نہیں بنتے۔ اس پارٹی میں جو بھی آئے گا وہ بڑا نام لے کر پارٹی میں نہیں آئے گا بلکہ اپنے آپ کو بڑا بنانے کے لیے اس پارٹی میں آئے گا۔‘
پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کی دوبارہ دوستی کے حوالے سے صحافی اجمل جامی کہتے ہیں کہ ’ان کی ناراضگی کبھی تھی ہی نہیں۔ ماضی میں اگر تلخیاں تھیں تو زرداری صاحب نے بڑے سلیقے سے ربط بحال کیا تھا۔ زرداری صاحب ایسی جگہوں پر ناراضگیاں نہیں رکھتے۔‘ 

شیئر: